1965ءکی جنگ متعدد محاذوں پر لڑی گئی، ہندوستان کا سب سے بڑا اور خطرناک حملہ سیالکوٹ کے محاذ پر ہوا تھا۔ جس کا مقصد لاہور، گوجرانوالہ شارع کو کاٹنا تھا۔ یہ حملہ ہندوستان کے چار ڈویژن (ایک لاکھ) فوج نے کیا جن میں ان کا مایہ ناز فرسٹ بکتر بند ڈویژن بھی شامل تھا جو تین سو سے زائد ٹینکوں سے لیس تھا۔ 7ستمبر1965ءکو عین سرحدوں پر مختصر سی لڑائی کے بعد ہندوستان کے بکتر بند ڈویژن نے بھرپور کوشش کی کہ آگے بڑھ کر پاکستانی فوج کو شکست دے اور اپنا ہدف حاصل کرے۔ 24 انفنٹری بریگیڈ کو حکم ملا کہ دشمن کی پیش قدمی کو روکے۔ ہماری فوج کی ایک مایہ ناز رجمنٹ 25کیولری (جس کے کمانڈنگ آفیسر کرنل نثار تھے) نے ہر اول دستے کا کام کرتے ہوئے بے پناہ دلیری اور مہارت کے ساتھ دشمن کو نہ صرف روکا بلکہ پیچھے دھکیل دیا۔ چند روز ٹینکوں کی لڑائی کے بعد پاکستان نے 11 ستمبر 1965 ءکے دن چونڈہ شہر کا چناﺅ کیا جو اس وقت کے جنگی حالات کے لحاظ سے نہایت موزوں جگہ پر واقع تھا وہاں 24 انفنٹری بریگیڈ نے ایک مضبوط قلعہ کے طور پر دفاع کی حکمت عملی اختیار کی اور 6 بکتر بند ڈویژن کو چونڈہ کے اطراف میں ٹینکوں کی جنگ کرنے پر مامور کیا۔ ہندوستان نے 12 ستمبر 1965ءسے لےکر 18 ستمبر 1965ءتک چونڈہ کے اردگرد لگا تار حملے کئے تاکہ چونڈہ کو چھوڑ کر آگے اردگرد کا علاقہ قبضہ کر لے اور چونڈہ کو بعد میں نمٹ لے لیکن پاکستان کے 6 آرمڈ ڈویژن نے نفری اور ٹینکوں کی کمی کے باوجود بھرپور مقابلہ کیا اور ہندوستانی فرسٹ آرمڈ ڈویژن کو چونڈہ سے آگے پیش قدمی سے روکے رکھا۔ یہی جنگ دنیا میں مشہور اور منفرد ٹینکوں کی جنگوں میں شمار ہوتی ہے۔ بے شمار مجاہدوں نے اعلیٰ کارکردگی کے نمونے پیش کئے۔ ہندوستان کے آرمڈ ڈویژن کا اتنا نقصان ہوا کہ ہندوستانی کور کمانڈر نے مجبوراً فیصلہ کیا کہ ٹینکوں کی بجائے (انفنٹری) کو آگے لایا جائے اور چونڈہ قلعہ پر حملہ کر کے قبضہ کیا جائے کیونکہ چونڈہ کا قلعہ نہ تو ٹینکوں سے مسمار کیا جا سکتا تھا اور نہ ہی اس کو چھوڑ کر آگے بڑھا جا سکتا تھا۔ پس ہندوستانی 6 پہاڑی ڈویژن کو ہدف ملا کہ وہ چونڈہ پر حملہ کر کے قبضہ کرے تاکہ آگے پیش قدمی ممکن ہو سکے۔ ہندوستانی 6 پہاڑی ڈویژن امریکن سازوسامان سے لیس تھا۔ ان کے جنرل آفیسر کمانڈنگ نے اپنا حملہ یوں ترتیب دیا:۔
58 بریگیڈ: چونڈہ۔ الٹر ریلوے لائن کے شمالی سمت سے حملہ کرے گا اور چونڈہ کے شمالی حصہ پر قبضہ کرے گا، اس بریگیڈ کی دو پلٹن 4جموں کشمیر اور 14 راجپوت تھیں۔
35بریگیڈ: سب سے پہلے اسکی ایک پلٹن (20راجپوت) جسوراں گاﺅں پر حملہ کریگی اور وہاں قبضہ کرنے کے بعد اسکی دوسری پلٹن (5جموں وکشمیر بٹالین) جسوراں چونڈہ سڑک کے غربی جانب سے حملہ کر کے چونڈہ ریلوے کراسنگ پر قبضہ کریگی۔ اس بریگیڈ کی تیسری پلٹن (6مرہٹہ) جسوراں گاﺅں سے پیش قدمی کر کے چونڈہ ریلوے سٹیشن پر قبضہ کریگی۔
40بریگیڈ: صبح19 ستمبر کو بکتر بند یونٹ کی مدد سے چونڈہ شہر پرقبضہ مکمل کرےگا۔ اس آپریشن کی کامیابی کے بعد ہندوستانی فرسٹ آرمرڈ ڈویژن کو حکم دیا گیا تھا کہ ان کیلئے چونڈہ کا کانٹا نکال دیا گیا ہے اور ابھی وہ گوجرانوالہ کی طرف سے پیش قدمی کر سکتے ہیں۔ جس کیلئے وہ تیار بیٹھے تھے۔
پاکستانی 24بریگیڈ جو چونڈہ کا دفاع کررہا تھا 4پلٹنوں پر مشتمل تھا۔ جو 25 کیولری 2پنجاب رجمنٹ، 14بلوچ رجمنٹ اور 3ایف ایف رجمنٹ پر مشتمل تھا۔ اس بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر عبدالعلی ملک تھے۔ اب وقت آ گیا تھا کہ بریگیڈ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائے اور اپنے سے تین گنا دشمن کا سامنا کرے۔ (نصرمن اللہ وفتح قریب)
18ستمبر 1965ءکو ہندوستانی حملہ کی کارروائی رات 8بجے شروع ہوگئی۔ سب سے پہلے تو ایک معجزہ نمودار ہوا کہ دشمن کا 58 بریگیڈ پوری رات بھٹک کر گھومتا رہا اور اپنے ہدف تک پہنچ ہی نہ سکا۔ ہندوستانی مورخوں کے مطابق وہ بھولے بھٹکے غلطی سے اپنی ہی ایک پلٹن (5جاٹ) کے ساتھ الجھ پڑے اور اپنے ہاتھوں جانی نقصان اٹھایا۔ وہ صبح تک سنبھل نہ سکے اور آپریشن سے باہر رہے۔ ہندوستان کے 6 پہاڑی بریگیڈ کے دوسرے بریگیڈ کی پہلی حملہ آور پلٹن (20راجپوت) نے حملہ سے پہلے اکٹھے ہونے کیلئے ایسی جگہ کا چناﺅ کیا جو 3ایف ایف رجمنٹ کی دو کمپنیوں کے درمیان واقع تھی۔ ان کا قصور بھی نہ تھا کیونکہ دن بھر یہ جگہ خالی تھی۔ صرف شام کو یہ دو کمپنیاں آگے بھیج دی گئی تھیں۔ دشمن کے اکٹھ کی نشان دہی اس راقم نے بذات خود جا کر کی اور اپنے کرنل کو اطلاع دےکر راجپوتوں کیساتھ نمٹنے کی منصوبہ بندی کی۔ 20 راجپوت رجمنٹ نے جسوراں پر حملے کا آغاز تو کیا لیکن اس طرف سے جسوراں گاﺅں میں مامور (اپنے کمپنی) جس کے کمانڈر کیپٹن رحیم شاہ تھے اور جہاں میں خود موجود تھا اور دوسری طرف سے جانے والی گاﺅں میں مامور (ڈی کمپنی) نے جسکے اس وقت کمانڈر کیپٹن وحید کاکڑ تھے۔ ان پر بھرپور فائر کھول دیا اور آسمان سے 3FF کی مارٹر پلاٹون نے ان پر آگ برسانی شروع کردی۔ اس قیامت خیز حالت میں 20راجپوت کا حملہ سخت ناکامی کا شکار ہوگیا اور میدان جنگ میں لاشیں، ہتھیار اور زخمی چھوڑ کر رات کی تاریکی میں بچے کھچے فرار ہوگئے۔
58 بریگیڈ کا دوسرا حملہ انکی جموں وکشمیر پلٹن نے 3 ایف ایف رجمنٹ کی (ڈی کمپنی) پر کیا جو گاﺅں جانےوالی میں مامور تھی۔ یہ کمپنی راقم کمان کررہا تھا۔ میری کمپنی دشمن کے انتظار میں پوری تیار حالت میں تھی۔ ہمارے ہتھیاروں کے فائر کھلتے ہی دشمن بھاگ نکلا لیکن اپنا ایک دلیر افسر لیفٹیننٹ چوہان ہمارے ہاتھوں قیدی اور بے شمار لاشیں اور ہتھیار چھوڑ گئے۔ اس ہندوستانی افسر نے ہمارے ہاتھوں سے بھاگنے اور اپنے ساتھیوں کو اکسانے کی کوشش کی جس کی بنا پر اسے وہیں میرے ہاتھوں سزائے موت سے ہمکنار ہونا پڑا۔ اس بریگیڈ کا تیسرا حملہ 6 مرہٹہ پلٹن کا شروع میں کامیاب رہا اور وہ چونڈہ ریلوے سٹیشن تک پہنچنے میں کامیاب رہے لیکن وہاں 3 ایف ایف رجمنٹ کے بٹالین ہیڈ کوارٹرز کے جیالوں نے ان کو روک دیا۔ چند گھنٹوں تک وہاں دستی لڑائی ہوتی رہی جس میں بٹالین کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل محمد اکبر صدیق، لیفٹیننٹ محمد طارق، لیفٹیننٹ محمد قیس، صوبیدار میجر نذیر الرحمن، حوالدار منور خان اور دیگر جیالوں نے جرا¿ت کی مثالیں قائم کیں۔ 3ایف ایف کے کرنل نے اپنی نفری کی کمی کی بدولت بریگیڈ سے مدد مانگی جنہوں نے 2 پنجاب کی ایک پلاٹون کی کمک بھیجی جو لڑائی میں بہت مفید ثابت ہوئی۔ کمانڈنگ آفیسر نے میری کمپنی کو حکم دیا کہ ہم پیچھے سے مرہٹوں پر فائر کھول دیں۔ یہ فائر 6 مرہٹہ کیلئے آخری تنکا ثابت ہوا۔ وہ حوصلہ ہار گئے اور 19 ستمبر 1965ءکی پو پھوٹتے ہی پسپائی کرنے لگے۔ علی الصبح 6پہاڑی ڈویژن اپنے بھرپور حملہ سے دستبردار ہو کر مکمل طور پر پسپا ہوگیا۔ راقم کو ہندوستان کے 35 بریگیڈ کے تینوں حملوں میں شامل ہونے کا شرف حاصل رہا اور اللہ تبارک وتعالی کی مہربانیوں کی وجہ سے 3ایف ایف رجمنٹ کو کامیابیاں نصیب ہوئیں۔