ستمبر کی جنگ پھر ہو گی؟

Sep 06, 2015

کرنل ((ر))زیڈ آئی فرخ

6ستمبر 2015 کا دن تاریخ میں ایک منفرد حیثیت سے رقم ہونے جا رہا ہے ۔ پاکستان اور انڈیا دونوں 6ستمبر 1965 کی جنگ کی گولڈن جوبلی صرف یادوں سے نہیں، عملی طور پر وہی حالات پیدا کر کے منا رہے ہیں ۔ ہماری عمر کے پاکستانیوں کو تو یوں لگ رہا ہے جیسے نصف صدی نہیں نصف شب ہی گزری ہو اور خوبصورت صبح کیلئے بقیہ رات کو خون کے چراغوں سے روشن رکھنا ہو۔ وہی ہندوستان کی کشمیر میں ظلم وبربریت ، وہی پاکستان پر الزام تراشی، وہی دنیا میں اپنے لئے ماحول سازگار بنانا اور وہی پاکستان پر جنگ کے بادلوں کا منڈلانا۔ اِدھر پاکستانی قوم کا آپس کے اندرونی اختلافات کو بُھلا کر ہندوستان کےخلاف یکجان ہو کر اپنی افواج کے ساتھ آ کھڑے ہونا اور اسی طرح ہی نوجوانوں کی رگوں میں دوڑتے خون کا چہروں پر عزمِ صمیم کا عیاں ہونا۔ سپاہیوں کی آنکھوں میں جنگ کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کرنے کی چمک اوراپنے سالار پر اعتماد۔ اس وقت بھی گنتی میں ہندوستان کی سپاہ اور ہتھیار ہم سے زیادہ تھے اور آج بھی، مگرپہلے کی طرح ہمارے ہتھیار بہتر بھی ہیں اور کارگری پر یقین بھی ہے۔ان حالات میں ہر جگہ سوسائٹی اور میڈیا پر ایک ہی سوال گردش میں ہے ، ”جنگ ہو گی یا نہیں ؟“ آئیں تجزیہ کرتے ہیں۔ پچھلے چند مہینوں میں پاک بھارت کشیدگی بڑھ رہی ہے جس کی بنیاد بھارت کا کشمیر کے حالات کو مزید خراب کرنا، ہماری سرحدی آبادیوں پر غیر انسانی بمباری، سرحد کے قریب مبینہ طور پر پاکستان سے آئے دہشت گردوں کے پکڑے جانے کے ڈرامے رچانا، مذاکرات سے فرار اور سارے کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنا ہے ۔ پاکستان کی طرف سے ان کی دھمکیوں اور جارحیت کا نپا تلا جواب اور انکے ڈراموں کے پو ل کھول دینے کو بھی انکے میڈیا نے جلتی پر تیل کا کام لیا ہے۔ گویا انہوں نے نہ صرف اپنی قوم کو جنگی جنون میں مبتلا کر دیا بلکہ ہمارے اندر بھی قدرتی ردِ عمل کو ابھرنے کا ماحول دے دیا۔ میرے نزدیک یہ بات چند مہینوں کے حادثات کی نہیں بلکہ انکی اس پلاننگ کا حصہ ہے جسکے تحت انہوں نے 68 سال سے خطے کا امن غارت کر رکھا ہے۔ اس صدی کے آغاز میں جونہی ہمارا فاٹا اور افغانستان سے عسکریت پسندوں سے ٹکراو¿ کا امکان پیدا ہوا ۔ ہندوستان نے ہمارے گردو پیش ڈیرے ڈال کر انکی تربیت اور امداد کا بیڑا اٹھا لیا۔ ایک عشرے کے بعد جب امریکی انخلاءکی باری آئی تو ہندوستان کو صرف دو ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ اور ہزاروں ارب ڈالر کی چاپلوسی کے عوض خطے کی مو¿ثر اور بڑی طاقت بننے کا چارسین والا خواب دکھایا گیا۔
(۱) ہندوستان امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنر ہو گا۔
(۲) ساو¿تھ اور سنٹرل ایشیاءکے علاقے میں سیکیورٹی کا کوآرڈینیٹر ہو گا۔
(۳) خطے میں باہم عوامی روابط کیلئے ممالک کی سرحدوں کو نرم کر دیا جائے گا۔
(۴) اکانومی ڈرائیو سرِفہرست ہو گی۔
ایک چھپا راز جس سے انڈیا کے منہ میں پانی آیا وہ یہ تھا کہ کسی بھی نقطے پر عمل کےلئے پاکستان کو انڈیا کی برتری تسلیم کرنا لازم تھا۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر پاکستان پر ہر طرح کا دباو¿ بڑھا کر دہشت گردی و سرحدی جارحیت کو رفتہ رفتہ تیز کر دیاگیا۔ اس کارِ شر کیلئے امریکہ میں ممنوع انٹری والے، مسلمانوں کے سخت دشمن اور کوتاہ نظر مودی کو منتخب کیا گیا۔ اس کی تکون میں بدنام سازشی ڈیو وال کو نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اور بطور آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ کو لایا گیا۔ جنرل دلبیرکے سینے پر صرف چار تمغے ہیں جن میںایک بھی بہادری یا جنگ کا نہیں سب سروس میڈل ہیں۔ ایک انہیں کشمیر میں قتل و غارت پر ملا۔ ایک کارگل علاقے میں ماو¿نٹین ڈویژن کمانڈ کرنے پر ، ایک چائنا بارڈر پر سروس کرنے پر اور ایک ناگا لینڈ میں کچھ بندے مارنے پر۔ انکے آرمی چیف جنرل VK Singh نے انہیں 2012 میں ڈسپلن اینڈ ویجلینس میں ناکامی پر سزا دی۔ جوبعدازاں انہیں آرمی چیف بنانے کےلئے ختم کر دی گئی جس طرح مودی پر سے امریکہ نے پابندی اٹھا لی۔
پچھلے ڈیڑھ سال میں یہ ٹیم مندرجہ بالا چاروں نقاط کو آگے لے جانے میں مکمل طور پر ناکام ہوئی جو اُن کی بوکھلاہٹ کا اصل سبب ہے اس پر مستزاد یہ ہے کہ ہمارے چائنہ اور روس سے بہتر تعلقات اور CPEC کے انعقاد نے انہیں مزید پیچھے دھکیل دیا۔ اب انکی کوتاہ نظری اور مائنڈ سیٹ انہیں انکے ماضی سے جوڑ رہا ہے ۔جو سازش ، واویلا ، الزام تراشی اور دہشت گردی سے اٹا پڑا ہے۔
اب ذرا بھارت کے طریقہ ¿ واردات پر بھی نظر ڈالیں۔ انہوں نے 1970ءمیں ہی کشمیریوں پر ظلم بڑھا دئیے تھے ۔ سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ پاکستان کےخلاف میڈیا مہم چلائی گئی۔ پھر مکتی باہنی تیارکر کے مشرقی پاکستان میں لانچ کی گئی۔ پھر اندرا گاندھی ہمارے دوستوں سے آغاز کر کے پوری دنیا میںاپنے لئے راہ ہموارکرنے نِکلی اور اسکے بعد حملہ کردیا۔ آج بھی اسی طرح کشمیر میں حالات کی سنگینی، انڈین دہشت گردی اور پاکستان کیخلاف بھرپور پروپیگنڈا اور مودی کے مڈل ایسٹ سمیت پوری دنیا میں حمایت کےلئے دورے شروع ہیں۔ اگر مذکورہ بالا مائند سیٹ والی تکون کی حالت اور پاکستان کےخلاف دنیا کی حمایت حاصل کرنے کی سعی کو بغور پڑھا جائے توانکی طرف سے کسی وقت بھی جنگ چھیڑنے کے اقدامات کافی حد تک کئے جا چکے ہیں۔ انڈین آرمی چیف کا کم وقتی آپریشن کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کشمیر سے کسی علاقے میں جنگی حالات پیدا کر کے ہمارے CPEC کو کچھ عرصے کےلئے Choke کر دیا جائے تاکہ عالمی طاقتیں مداخلت کریں اورہمیں دباو¿ میں لاکر انڈیا کو کوئی فائدہ دلا سکیں۔ ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ۔
(۱)جارحانہ سفارتکاری جو ہر جگہ انڈیا سے آگے بھی چلے اور پیچھے بھی ۔
(۲) مکمل تیاری جو ماشاءاللہ ہر وقت موجود ہے۔
(۳) ہندوستان کے ساتھ ہر جگہ معذرت خواہانہ رویہ ترک کر کے برابری کی سطح پر بات کی جائے۔
(۴) انہیں یقین دلایا جائے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے مگر اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔
(۵) ہم پلان کریں اور انہیں اس کا گمان ہو کہ ہم پہلے دو گھنٹے میں ہی انکا زیادہ سے زیادہ نقصان کر دینگے۔ ہم تو خون دینے کے عادی ہیں ۔ اگر انڈیا کو صرف10 ہزار لاشیں ملنے کا شبہ بھی ہوا تو جرا¿ت نہیں کریگا۔
ہندوستانی فوج کے سپاہی سے آرمی چیف تک کسی نے بھی گولی دوسری جانب سے اپنے اوپر آتی نہیں دیکھی جس کے بغیر سپاہی سپاہی بنتاہی نہیں ۔ جبکہ ہماری فوج کا ہر فرد گولیوں کے کھیل کا عادی اور پوری قوم صبرو استقلال کا مجسمہ ہے۔
دوستو! خصوصاً عزیزو ! 6 ستمبر کا دن عزم سے مناﺅ کہ ہم اپنی منزلوں کے قریب ہیں۔ انشاءاللہ

مزیدخبریں