واشنگٹن (نیٹ نیوز+ ایجنسیاں) ملا عمر نے مشرف حکومت سے کہا تھا کہ اگر انہیں طالبان کی پالیسیاں پسند نہیں ہیں تو وہ بے شک قندھار پر بمباری کریں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے خفیہ مراسلے کے مطابق پرویز مشرف نے یہ بات 26 مارچ 2000ء کو اسلام آباد میں ایک ملاقات کے دوران سابق امریکی نائب وزیر خارجہ تھامس پکرنگ کو بتائی تھی۔ ملاقات میں مشرف نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی محمود کے دورہ قندھار کا حوالہ دیتے ہوئے پکرنگ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ طالبان سے نمٹنا کتنا مشکل ہو سکتا ہے۔مشرف کے مطابق ملا عمر نے جنرل محمود سے کہا کہ وہ معذرت خواہ ہیں کہ طالبان کی پالیسیاں پاکستان کیلئے مشکلات کا سبب بن رہی ہیں جب مشرف نے امریکہ اور طالبان کے درمیان براہ راست رابطوں پر زور دیا تو پکرنگ نے انہیں بتایا کہ امریکہ مختلف مقامات پر مختلف اوقات میں طالبان کے ساتھ واشنگٹن، نیو یارک اور اسلام آباد میں براہ راست بات چیت کرتا رہا ہے۔پکرنگ نے کہا ’یہ حقیقت امریکہ کیلئے خاص تشویش کا باعث ہے کہ پاکستان طالبان کا سب سے بڑا حامی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارا اچھا دوست ہمارے سب سے بدترین دشمن کا بہترین دوست ہے‘۔پکرنگ کے مطابق، یہ ہمارے تعلقات پر ایسا پھوڑا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید خراب ہوتا جائے گا۔ پکرنگ نے کہا کہ امریکہ کو معلوم ہے کہ آخر کیوں مشرف ٹھوس نتائج یقینی بنائے بغیر قندھار نہیں جانا چاہتے۔’تاہم، یہ مشرف کیلئے ضروری ہے کہ وہ سمجھیں کہ اسامہ بن لادن کا مسئلہ پاکستان امریکہ تعلقات کو کھا رہا ہے‘۔اس پر مشرف نے جواب دیا کہ وہ امریکی تشویش سے پوری طرح آگاہ ہیں وہ ذاتی طور پر تین بڑے مسائل پر طالبان کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔ پہلا مسئلہ دہشت گردی کے تربیتی کیمپ، افغان سرزمین پر طالبان کی جانب سے پاکستانی دہشت گردوں اور مجرموں کو ٹھکانے فراہم کرنا۔ دوسرا مسئلہ امن اور تیسرا اسامہ بن لادن ہے۔ مشر ف نے بتایا کہ اسامہ بن لادن کے مسئلہ پر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ مشرف نے بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں دورے پر آئے طالبان کے وزیر داخلہ سے ملاقات کی۔مشرف کے مطابق، وزیر داخلہ نے معمولی لچک دکھاتے ہوئے بن لادن کے خلاف شواہد پر غور کیلئے سعودی عرب ، پاکستان اور ممکنہ طور پر او ائی سی پر مشمل علما کونسل بنانے کے امکان کا عندیہ دیا۔ مشرف نے کہا کہ طالبان بن لادن کے جرائم کے ثبوت دیکھنے پر اصرار جاری کر رہے ہیں۔ پکرنگ نے کہا کہ امریکہ نے حال ہی میں اسامہ کے خلاف شواہد پر مبنی پریزنٹیشن پاکستان کے حوالے کی ہے۔ پکرنگ نے کہا کہ امریکہ کے خیال میں وہ پاکستان کی مدد کے بغیر اسامہ کا مسئلہ حل نہیں کر سکتا۔ ’اگر طالبان کو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا تو وہ ہماری بھی کسی بات کو سنجیدگی سے سننے میں ہچکچائیں گے‘۔جنرل محمود اور امریکی سکیورٹی حکام کے درمیان ملاقاتوں سے پہلے پاکستان میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے واشنگٹن کو بھیجے گئے ایک اور خفیہ مراسلے میں اسلام آباد کی افغان پالیسی کا مختصر جائزہ موجود ہے۔’ اسلام آباد افغانستان میں مخلص، دوستانہ، ایران اور بھارت کی مخالف، پشتون اکثریت اور پاکستان کے خلاف علاقائی ملکیت کے دعوؤں میں دلچسپی نہ رکھنے والی حکومت قائم کرنے کیلئے پر عزم ہے‘۔ مراسلے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پالیسی پر امریکی ردعمل میں معمولی تبدیلی آئی ہے۔ امریکی حکام پر زور دیا گیا ہے کہ وہ جنرل محمود سے پوچھیں کہ آیا پاکستان طالبان کا کوئی ایسا متبادل سوچ سکتا ہے جو واشنگٹن اور اسلام آباد دونوں کے مفادات پورے کر سکے۔ امریکی حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ جنرل محمود پر واضح کریں کہ طالبان میں قیادت میں تبدیلی امریکہ کے اطمینان کیلئے کافی ہو سکتی ہے۔’ہمیں جنرل محمود کو یہ عندیہ بھی دینا چاہیے کہ اگر پاکستان ہماری مدد نہیں کر سکتا تو ہم مدد کیلئے کسی اور جانب دیکھیں گے۔ بھارت ازبکستان اور روس کے نام ظاہر کرنا ضروری نہیں۔