ستمبر 1965ءکی پاک بھارت جنگ کو 51 سال ہو چکے ہیں۔گویا یہ نصف صدی کا قصہ ہے جو طویل عرصہ پر محیط ہے۔ 51برس میں دنیا کی بہت سی اقوام اور ممالک کے حالات بدلے ۔بہت سے ممالک کے درمیان دوستی کے رشتے استوار ،اور دشمنی کے مزاج و معیار بدلے۔لیکن اگر کوئی چیز نہیں بدلی تو وہ بھارت کی پاکستان دشمنی ہے۔51 برس کے عرصہ میںبہت سے پاکستانی حکمرانوں نے بھارت کے ساتھ ”جیو اور جینے دو“۔۔”کچھ لو اور کچھ دو“ کی بنیاد پر تعلقات بہتر کرنا چاہے لیکن بھارتی حکمرانوں سیاستدانوں اور جرنیلوں کی ایک ہی رٹ اور ضد رہی کہ” نہ جیو اور نہ جینے دو“۔ ”سب کچھ لو اور کچھ بھی نہ دو“۔
جب ایک قوم دوسری پر حملہ آور ہوتی ہے تو اس کے کچھ مقاصدہوتے ہیں۔اسی طرح بھارت نے پاکستان پر جو جنگ مسلط کی اس کا سبب مسئلہ کشمیراور مقصد۔ پاکستان پر قبضہ کرنا تھا۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ جب بھارت نے جنگ شروع کی تو سیز فائر لائن پربڑا محاذ کھولنے کی بجائے کشمیر سے کئی ہزار میل دورسندھ کے ایک بنجر علاقہ رن کچھ میں پہلا محاذ کھولا۔ پھر سیز فائرلائن پر متعددحملوں اورجھڑپوں کے بعداصل اور بڑا حملہ لاہور پر 6ستمبر کی صبح سحری کے وقت کیا جبکہ اس جنگ کا خطرناک ترین حملہ سیالکوٹ سیکٹر میں چونڈہ کے محاذ پرٹینکوں کی مدد سے کیا گیا۔یہ سوال بہت اہم ہے کہ آخر آزاد جموں کشمیر پر بھارت نے بڑا حملہ کیوں نہ کیا۔اس کاجواب یہ ہے کہ 1947 ءکی پہلی پاک بھارت جنگ سرزمین کشمیر پر لڑی گئی تھی۔اس جنگ میں بھارتی فوج کو لارڈ ماﺅنٹ بیٹن،برٹش فوج کے افسروںاور جوانوں کی مدد ومشاورت بھی حاصل تھی۔اسکے باوجود بھارتی سورماﺅں کے قدم سرزمین کشمیر پرجم اور تھم نہ سکے تھے۔بھارتی تجزیہ نگاروں کے بقول مہاراجہ ہری سنگھ نے جس کشمیر کا بھارت سے الحاق کیا اس کا رقبہ 84471 مربع میل تھالیکن جب جنگ بند ہوئی تو ریاست کا 33958 مربع میل رقبہ بھارت کے قبضہ سے نکل چکا تھا۔ڈنڈوں،سوٹوں ،تلواروںاور پرانے ہتھیاروں سے مسلح کشمیرمجاہدین کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست بھارتی حکمرانوں اور جرنیلوںکیلئے بہت ذلت آمیز،بھیانک اور رسوا کن تجربہ تھا ۔چنانچہ اب کی بار بھارتی جرنیل اپنے بزدل جوانوں کے حوصلے بڑھانے کیلئے جنگ کی ابتدا بزعم خویش کسی کمزور محاذ سے کرنا چاہتے تھے ان کا خیال تھا کہ سندھ کے بنجراور دور افتادہ علاقہ رن کچھ کی 250لمبی سرحدی پٹی کے دفاع سے پاکستان غافل ہوگا ۔لیکن جب رن کچھ میں بھی بھارتی فوجیوںکو منہ کی کھانی پڑی تو وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے پھر اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے رات کی تاریکی میںٹینکوں،توپوں اور طیاروں کے ساتھ اچانک واہگہ بارڈراور ہریکے برکی روڈسے لاہور پر حملہ آور ہوگئے ۔بھارتی فوج کے کمانڈر۔ جنرل چوہدری اپنے افسروں اور جوانوں کو باور کروا چکے تھے کہ جشن ِفتح لاہور مال روڈ پر منایا جائے گا او ر 6ستمبر صبح کا ناشتہ جمخانہ لاہور میں کیا جائے گا ۔یہ حملہ اچانک تھا اس لئے ۔۔بہت ہی تباہ کن اورخطرناک تھا۔اہم بات یہ ہے کہ حملے کے وقت واہگہ پوسٹ پر صرف رینجرز تعینات تھے اسکے بعد جب یہاں پاک فوج کے افسر و جوان پہنچے تو وہ دشمن کیلئے ناقابل تسخیر چٹان ثابت ہوئے ۔جرا¿ت ایمانی اور جذبہ شہادت سے لبریز پاک فوج کے جوان کئی دن تک مسلسل آرام کئے اور کھائے پئے بغیر محاذوں پر ڈٹے رہے ، داد ِشجاعت دیتے اور دشمن کو نشان عبرت بناتے رہے ۔ پاک فوج کے جوانوں کی وردیاں پھٹ گئیں،جل گئیں ،جسم زخموں سے چور ہو گئے ،دھول میں اٹ گئے لیکن کوئی جوان محاذ چھوڑنے اور آرام کرنے کیلئے تیار نہ تھا ۔اسی طرح چونڈہ کے محاذ پر بھی تاریخ کا عظیم معرکہ لڑاگیا اور چونڈہ 600 بھارتی ٹینکوں کا قبرستان ثابت ہوا۔کہتے ہیں کہ جنگوں میں اسلحے سے اسلحہ اور لوہے سے لوہا ٹکراتا ہے تب کشتوں کے پشتے لگتے اور فتح وشکست کے فیصلے ہوتے ہیں۔لیکن 65ءکی جنگ میں بھارتی فوج کا اسلحہ،بارود،توپیں،ٹینک اور طیارے۔پاک فوج کے جوانوں اور جسموںسے نہیں۔انکے جذبہ ایمان اور شوق شہادت سے ٹکرائے اور پاش پاش ہوئے ۔پاک فوج کے جوانوں کی طرح عوام کے جذبات بھی بے مثال تھے۔خندقیں کھودی جاتی ہیں پناہ اور حفاظت کیلئے لیکن لاہوریے بھی کمال تھے کہ جب بھارت کے جنگی جہاز پاکستانی حدود میں داخل ہوتے تو زندہ دلانِ لاہور خندقوں اور پناہ گاہوں میں دبکنے کی بجائے باہر نکل آتے بھارتی طیاروں کی طرف ڈنڈے لہراتے جب پاکستانی شاہین بھارتی گدھوںپر لپکتے جھپٹتے۔ تو لوگ بےساختہ نعرہ تکبیر بلند کرتے۔ 65ءکی جنگ میں پاک فوج کے جذبہ ِشہادت، لوگوںکی شجاعت کو دنیا نے تسلیم کیا بڑے بڑے عالمی جنگی وقائع نگاریہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ پاکستانی قوم کا دنیا کی کوئی قوم مقابلہ نہیں کرسکتی۔
پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ بھارت اس جنگ سے دو مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا ۔
اولاََ۔۔۔۔تحریک آزادی کشمیر کا خاتمہ۔
ثانیاََ۔۔۔۔۔پاکستان پر قبضہ۔
یہ بات بالکل عیاں ہے کہ بھارت دونوں مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا اور اب بھی ناکام ہے۔ جنگ کے بعد پاکستان کو پہلے سے زیادہ دنیا میںوقار ومقام حاصل ہوااور یہ ملک اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔ یہاں تک کہ وہ قوتیں جو ہر دو سال بعد پاکستان کے ٹوٹنے کی پشین گوئی کیا کرتی تھیں وہ خود اپنی شکست کے زخم چاٹ رہی ہیں۔جہاں تک تحریک آزادی کشمیر کا تعلق ہے وہ بھی پہلے زیادہ مضبوط وتوانا ہوچکی ہے۔باوجود اس کے کہ اس وقت مقبوضہ جموں کشمیر بھارتی ظلم آخری حدوں کو چھورہاہے۔ وہاں کھلے عام ہاکستان کے پرچم لہرائے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ حریت کانفرنس کے قائدین اورکشمیری عوام پوری طرح یکسو اور آزادی کی منزل کی طرف رواںدواں ہیں ، انکے دلوں میں سے آزادی کا جذبہ اورپاکستان کی محبت ذرا بھی کم نہیں ہوئی۔
سچی بات یہ کہ65ءکی جنگ میں پاکستان کو شانداراور تاریخی فتح حاصل ہوئی تھی۔گو کہ مقابلے میں دشمن بہت بڑا تھا لیکن وہ ذلیل وخوار ہوا تھا۔موجودہ حالات کے تناظر میں ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا ہو گا کہ1965ءکے موقع پر ہمیں فتح کیسے ملی؟ ہم سے کئی گنا بڑا دشمن کیوںکر ناکام ہوا؟۔ اس تاریخی فتح کا ماحاصل اگر دولفظوں میں بیان کیا جائے تو وہ ہے نظریہ پاکستان کے ساتھ وابستگی اور پختگی ۔جی ہاں۔ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ۔ کا نظریہ جس کی بدولت ہمارے بزرگوں نے انگریز اور ہندﺅوں کو شکست فاش سے دوچارکر کے پاکستان حاصل کیا تھا۔صدر ایوب خان نے6 ستمبرکی صبح اپنی نشریاتی تقریر میں قوم کو ا سی نظریہ کی دعوت دیتے اور ہندﺅوں کو للکارتے ہوئے کہا تھا”میری قوم کے بہادر جوانو۔ لاالہ الا اللہ۔۔ پڑھتے چلو آگے آگے بڑھتے چلو“پھر دنیا نے دیکھا ہماری قوم سیسہ پلا ئی دیواربن گئی تھی۔آج ایک بار پھردشمن ہمیں مٹاڈالنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ لیکن پاکستانی قوم اور بہادر فوج 65ءمیں اپنے وطن کے دفاع سے غافل تھی اور نہ آج غافل ہے۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مودی اور ”را“کی پاکستان کے خلاف جارحیت کو ناکام بنانے کے عزم کااظہار کرکے ایوب خان کی6ستمبر کی تقریر کی یاد تازہ کردی اور پوری قوم میں ولولہ ِ تازہ پھونک دیا ہے۔ ان حالات میں حفاظتی ودفاعی اقدامات بجا لیکن ہماری اصل تیاری ۔۔نظریہ پاکستان،اسلام اور کلمہ توحید کے ساتھ وابستہ رہنے اوراتحاد واتفاق کی لڑی میں پروئے رہنے میں ہے۔
جنگِ ستمبر اور مسئلہ کشمیر
Sep 06, 2016