سفارتی محاذ کو مضبوط بنا کر اوراندرونی کمزوریوں پر قابو پاکر ہی ہم دفاع وطن کے تقاضے نبھا سکتے ہیں

آج کا یوم دفاع اور ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ کے بعد برکس کانفرنس میں چین کی جانب سے بھی پاکستان پر دہشتگردی کا ملبہ

قوم آج 6؍ ستمبر کو 52واں یوم دفاع ملی جوش و جذبے اور ملک کی سلامتی کے درپے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو ہزیمتوں سے دوچار کرنے کے عزم کے ساتھ منا رہی ہے۔ 1965ء کی جنگ میں آج کے دن بھارتی سورمائوں کو ناکوں چنے چبوانے اور بھارت کی تمام سازشوں اور چالبازیوں کو مستعدی اور چابکدستی کے ساتھ ناکام بنانے والی جری و بہادر افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرنے اور انکے ساتھ قومی یکجہتی کے اظہار کیلئے آج سرکاری اور نجی سطح پر مختلف تقاریب کا اہتمام کیا جارہا ہے جن میں 65ء کی جنگ کے شہداء اور غازیوں کے ملک کے دفاع کیلئے مر مٹنے کے جذبے اور انکی کامرانیوں کا تذکرہ کیا جائیگا اور ملک کی سلامتی کو درپیش نئے اندرونی اور بیرونی خطرات کو اجاگر کرکے قوم کے سیسہ پلائی دیوار بننے کا جذبہ مستحکم بنانے کی فضا استوار کی جائیگی۔ لاہور میں آج سول و فوجی حکام‘ سیاسی قائدین اور عوام شہداء کی یادگار باٹاپور اور بھسین گائوں میں حاضری دینگے اور شہداء کی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھائیں گے۔ اسی طرح 1965ء کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے آج پوری قوم صبح 9 بجکر 29 منٹ پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کریگی جس کا مقصد دشمن کو اسکی سازشوں کے مقابل پوری قوم کے یکجہت ہونے کا پیغام دینا ہے۔ اسکے بعد صبح ساڑھے 9 بجے تمام نشریاتی اداروں پر قومی ترانہ پیش کیا جائیگا۔ یوم دفاع کے حوالے سے آج پرنٹ میڈیا نے خصوصی اشاعتوں اور الیکٹرانک میڈیا نے خصوصی پروگراموں کا اہتمام کیا ہے۔
6؍ ستمبر 1965ء کو بھارتی جارحیت کے ارتکاب کی صورت میں ہم پر مسلط کی گئی جنگ میں بے شک افواج پاکستان نے ہر محاذ پر دفاع وطن کے تقاضے نبھاتے ہوئے دشمن کے دانت کھٹے کئے اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرتے ہوئے مکار دشمن کی افواج کو زمینی‘ فضائی اور بحری محاذوں پر منہ توڑ جواب دیکر قربانیوں کی نئی نئی اور لازوال داستانیں رقم کیں جبکہ پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت و پاسبانی کے تقاضے نبھاتی رہی۔ اس جنگ نے ہی قوم میں ’’پاک فوج کو سلام‘‘ کا بے پایاں جذبہ پیدا کیا تھا جسکے نتیجہ میں ملک کی مسلح افواج نے اپنے سے تین گنا زیادہ دفاعی صلاحیتوں کے حامل مکار دشمن بھارت کی فوجوں کو پچھاڑ کر انہیں پسپائی پر مجبور کیا اور بھارتی لیڈر شپ اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی دہائی دیتی نظر آئی۔
اہل وطن دفاع وطن کے اس جذبے کو تازہ رکھنے اور نئے عزم و تدبر کی صف بندی کیلئے ہر سال 6؍ ستمبر کو یوم دفاع کے طور پر مناتے ہیں جو حب الوطنی کا تقاضا بھی ہے۔ آج کا یوم دفاع اس لئے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ آج پھر ہمارا مکار دشمن ہماری آزادی و خودمختاری اور سالمیت کو چیلنج کرتا نظر آتا ہے جو دہشت گردوں کے مبینہ ٹھکانوں کے حوالے سے عالمی فورموں پر ہمارے خلاف مذموم پراپیگنڈا کرکے ہمیں اقوام عالم میں تنہاء کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے اور ہمارے خلاف نئی جنگ مسلط کرنے کی تیاریوں میں ہے۔
ہمارے اس مکار دشمن بھارت نے 65ء کی جنگ میں پاک فوج کے ہاتھوں اٹھائی جانیوالی ہزیمتوں کا 71ء کی جنگ میں بدلہ چکانے کی سازش کی اور سانحۂ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں اس ارض وطن کو دولخت کردیا۔ اس وقت بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے یہ بڑ ماری تھی کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے جبکہ ہندو جنونیت نے عملاً دو قومی نظریے کو مزید اجاگر کردیا۔ بھارت نے باقیماندہ پاکستان کی سلامتی خدانخواستہ ختم کرنے کیلئے ایٹمی صلاحیتیں حاصل کیں تو پاکستان کی اس وقت کی قیادت نے بھی کشمیر کی آزادی کیلئے بھارت سے ہزار سال تک جنگ کرنے کے عزم کا اظہار کرکے پاکستان کیلئے ایٹمی قوت کے حصول کا عزم باندھ لیا جس کیلئے آنیوالے تمام حکمرانوں نے ملکی دفاع کے تقاضوں کے مطابق اپنا اپنا حصہ ڈالا اور جب مئی 1998ء میں بھارت نے دوسری بار ایٹمی دھماکے کئے تو اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف نے 28 مئی 1998ء کو ایٹمی بٹن دبا کر اور تین بھارتی دھماکوں کے جواب میں پانچ دھماکے کرکے پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا جس سے بھارتی برہمنوں کی دھوتی ڈھیلی اور سورمائوں کی پتلون گیلی ہوگئی۔ ہمارے اس مکار دشمن کو اب تک پاکستان پر 65ء اور 71ء جیسی جارحیت مسلط کرنے کی تو جرأت نہیں ہوئی مگر وہ دوسرے محاذوں پر پاکستان کی سلامتی کیخلاف گھنائونی سازشوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔ اسی تناظر میں آج پاکستان کو دہشت گردی کا شکار کرنیوالے امریکہ اور بھارت کی قیادتوں نے پاکستان کی سلامتی کیخلاف گٹھ جوڑ کر رکھا ہے جو درحقیقت بھارت ہی کی مکاری ہے جس کے تحت پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کی سازش کی جاتی ہے اور دوسری جانب دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر اسے اقوام عالم میں تنہاء کرنے کی سازشی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنایا جارہا ہے۔ اس کیلئے ہمارے مکار دشمن بھارت کو امریکہ میں ری پبلکن ٹرمپ کے برسراقتدار آنے سے زیادہ سہولت ملی ہے جو خود بھی پاکستان اور اسلام پر دہشت گردی کا لیبل لگانے میں پیش پیش ہیں اور اس ایجنڈے پر عمل پیرا ہو کر پاکستان پر مختلف پابندیاں عائد کرانے اور سپورٹ فنڈ سے پاکستان کی منظورشدہ گرانٹ روکنے کی بدنیتی کا متعدد مواقع پر اظہار بھی کرچکے ہیں۔ اس سلسلہ میں ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ پاکستان کی سلامتی کیخلاف پہلے ہی خطرے کی گھنٹی بجا چکا ہے جبکہ بھارت اپنے سازشی منصوبے میں اس حد تک کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے کہ آج ہمارے قابل بھروسہ اور بے لوث دوست چین کی جانب سے بھی انہی دہشت گرد تنظیموں کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے جن کے بارے میں اس سے قبل بھارت اور امریکہ کی جانب سے ’’ڈومور‘‘ کے تقاضے سننے کو ملتے رہے ہیں۔ گزشتہ روز چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ہونیوالی پانچ ملکی برکس کانفرنس میں بالخصوص چین کی جانب سے جس طرح کالعدم تنظیموں لشکر طیبہ اور جیش محمد کی مذمت کی گئی اور انکے حوالے سے دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار اور اس امر کا تقاضا کیا گیا کہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث اور ان کا انتظام کرنے یا حمایت کرنے والوں کو کیفرکردار کو پہنچایا جائے۔ اس سے بادی النظر میں یہی تاثر پختہ ہوتا ہے کہ سفارتی محاذ پر پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کی بھارتی کوششیں کامیاب ہورہی ہیں اور ہمارا چین جیسا مخلص دوست بھی ہمارے خلاف بھارتی پراپیگنڈے سے مرعوب ہوتا نظر آرہا ہے۔ اگر برکس کانفرنس کے 40 صفحات پر مشتمل مشترکہ اعلامیہ میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان ہی کو فوکس کیا گیا ہے اور عالمی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ ایک وسیع البنیاد بین الاقوامی انسداد دہشت گردی اتحاد قائم کیا جائے جو درحقیقت پاکستان کو دنیا میں تنہاء کرنے کا عندیہ ہے تو آج یوم دفاع کے موقع پر ہمیں ملک کی سلامتی کے تحفظ کیلئے زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔
بے شک آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز راجگال میں جوانوں سے خطاب اور عیدالاضحی کے روز گوادر اور تربت کے دورہ کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بجا طور پر باور کرایا ہے کہ پاکستان ہمارا جذبہ ہے اور ہماری زندگیاں پاکستان کیلئے ہیں جبکہ ملک سے بڑھ کر کچھ نہیں اور نہ کوئی شخص ملک سے بالاتر ہے۔ اسکے باوجود آج ملک کی سلامتی کیخلاف جاری علاقائی اور عالمی سازشوں کو ناکام بنانے اور دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کیلئے سیاسی اور عسکری قیادتوں کے مکمل یکجہت ہونے اور دشمن کو قوم کے سیسہ پلائی دیوار بننے کا ٹھوس پیغام دینے اور اسی طرح سفارتی محاذ پر زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی تناظر میں آرمی چیف نے متحد ہو کر پاکستان کو بہترین ملک بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور دشمن کو باور کرایا ہے کہ مادر وطن اور اسکے عوام کے تحفظ کیلئے عید کا روز بھی اپنے فرائض کی ادائیگی میں گزارنا ہی مسلح افواج کے اہلکاروں کیلئے بہترین جشن ہے۔ بلاشبہ آج ملک کی حکومتی‘ سیاسی قیادتوں کا بھی امتحان ہے کہ وہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف دشمن کی کامیاب ہوتی سازشوں کے توڑ کیلئے کیا حکمت عملی طے کرتی ہیں اور دہشت گردوں کیخلاف اب تک بلاامتیاز اٹھائے گئے اقدامات کی بنیاد پر پاکستان پر اقوام عالم بالخصوص چین کا اعتماد بحال کرنے کیلئے کیا حکمت عملی طے کرتی ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے گزشتہ روز برکس اعلامیہ کو مسترد کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں۔ اسکے باوجود آج اس بنیاد پر قومی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنے اور دفاع وطن کیلئے زیادہ متفکر ہونے کی ضرورت ہے کہ ہمارے جس قابل بھروسہ دوست ملک چین کے سی پیک کے حوالے سے بھی ہمارے ساتھ مفادات جڑے ہوئے ہیں اور جو ہر عالمی فورم اور محاذ پر ہمارا بہترین وکیل رہا ہے وہ بھی آج دہشت گردوں کیخلاف اپریشنز کے حوالے سے ہماری کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتا کیوں نظر آرہا ہے۔ اگر ہم خود دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے اور دشمن کی پھیلائی گئی دہشت گردی سے اپنے 70 ہزار سے زائد شہریوں کی جانوں کا اور ملکی معیشت کیلئے اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانے کے باوجود اپنے کردار پر اپنے دوستوں کو بھی مطمئن نہیں کرپا رہے تو ہمیں ملک کے دفاع کے حوالے سے زیادہ متفکر ہونے کی ضرورت ہے۔ آج کا یوم دفاع قومی‘ سیاسی ‘عسکری قیادتوں اور پوری قوم سے اس امر کا ہی متقاضی ہے کہ اتحاد و یکجہتی کے تحت دفاع وطن کے تقاضے نبھائے جائیں۔ آج ہر محاذ پر اور چاروں جانب سے ملک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں تو ہمیں اپنی اندرونی کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ کسی کو ہماری جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ ہوسکے۔

ای پیپر دی نیشن