برکس اعلامیہ مسترد‘ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں: وزیر دفاع‘ ٹرمپ کی تقریر سے تعلقات ہائی جیک نہیں ہونے چاہئیں: سفیروں کی تجویز

اسلام آباد (شفقت علی/ دی نیشن رپورٹ) سفیروں کی کانفرنس میں سینئر پاکستانی سفیروں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کی متنازعہ تقریر کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہائی جیک (یرغمال) نہیں ہونے دینا چاہئے۔ کانفرنس میں شریک ایک سفارتکار نے دی نیشن کو بتایا ہے کہ شرکاءدونوں ملکوں کے تعلقات کے حامی ہیں تاہم اس سے ملکی خودمختاری کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ اس حوالے سے اجلاس میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کی مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کے ساتھ ملاقات میں اس حوالے سے کی جانے والی وضاحت کا بھی ذکر کیا گیا جس میں ہیل کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار نہیں دیا۔ سفیروں نے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات اور شراکت داری کو بہتری کے لئے موقع دینے کے حق میں فیصلہ دیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں برکس کے اعلامیہ اور جن کالعدم تنظیموں کا اس میں ذکر کیا گیا پر بھی بات کی گئی اور وزیر خارجہ جو 8 ستمبر کو چین جارہے ہیں، اپنے دورے میں اس پر بات کریں گے۔ ذرائع کے مطابق سفیروں کی کانفرنس میں دی گئی تجاویز کو خارجہ پالیسی کا حصہ بنایا جائے گا۔ 

اسلام آباد (آن لائن+ نوائے وقت نیوز) وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کے خواہاں ہیں، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان نے بے شمار قربانیاں دی ہیں، افغانستان میں قیام امن کیلئے تعاون جاری رکھیں گے۔ ان خیالات کا اظہار وزیر خارجہ خواجہ آصف نے سفیروں کی تین روزہ کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں امریکہ، چین، روس، ترکی اور دیگر اہم ممالک میں پاکستانی سفیر شریک ہیں۔ کانفرنس میں خطے کی موجودہ صورتحال اور درپیش مسائل کے علاوہ پاک، امریکہ تعلقات زیر بحث آئے۔ وزیر خارجہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا پاکستان میں امن و امان کی صورتحال افغانستان میں قیام امن سے منسلک ہے۔ افغانستان میں امن و سلامتی کیلئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی کے بیان پر باہمی مشاورت جاری ہے۔ امریکہ کے ساتھ باہمی تعلقات میں اعتدال پسندی کے خواہاں ہیں۔ امریکی صدر کی پالیسی کے بارے میں ہم خیال ممالک کے ساتھ باہمی مشاورت جاری ہے۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔ اجلاس میں افغانستان، ایران، قطر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور برسلز سمیت دیگر اہم ممالک میں تعینات پاکستانی سفیر اجلاس میں شریک ہیں۔ اجلاس جمعرات تک جاری رہے گا۔ اختتامی سیشن سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی خطاب کرینگے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکی پالیسی و علاقائی صورتحال پر سفیروں سے تجاویز مانگ لیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ممالک سے برابری کی بنیاد پر بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ افغان مسئلے کا حل فوجی نہیں مذاکرات ہیں۔ پاکستان کشمیریوں کی حمایت جاری رکھے گا۔ خواجہ آصف نے مزید کہا کہ پاکستان امن پسند ملک ہے۔ افغان صدر کی جانب سے مذاکرات کی بات ہمارے موقف کی حمایت ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ ہر سطح پر بھرپور طریقے سے اٹھانا ہوگا۔ اجلاس کے شرکاءنے نئی امریکی پالیسی میں افغانستان میں بھارتی کردار پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ شرکاءنے کہا پاکستان کی قربانیاں تسلیم کئے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہے۔ اجلاس میں شریک سفیروں نے پاکستان میں دہشت گرد ٹھکانوں کی موجودگی سے متعلق امریکی الزامات کو مسترد کر دیا۔ کانفرنس میں افغانستان کی صورتحال‘ امریکہ کی خطے سے متعلق پالیسی اور آئندہ کی حکمت عملی زیرغور ہے۔ علاوہ ازیں ٹی وی سے گفتنگو میں وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ سفیروں کی کانفرنس کی سفارشات پارلیمنٹ اور دیگر فورمز کو پیش کی جائیں گی۔ برکس اعلامیے کو خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے کہا چین پاکستان کا قابل اعتماد دوست ملک ہے چین برکس اعلامیے کا اکیلا رکن نہیں برکس اعلامیہ پاکستان کے خلاف نہیں خطے کی صورتحال کے لحاظ سے نئی خارجہ پالیسی اپنانا ہو گی خارجہ پالیسی صرف قوم کے وقار کے تحفظ کےلئے ہونی چاہئے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کا مسئلہ ہماری اندرونی سیاست کا شکار ہے پاکستان روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف اظہار یکجہتی کر رہاہے۔ ماضی میں سعودی عرب میں پناہ لینے والے روہنگیا مسلمانوں کو پاکستانی پاسپورٹ دیئے پاکستان کو اجازت مل جائے تو روہنگیا مسلمانوں کے لئے ریلیف اشیا پہنچانے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ برکس فورم میںایک ہمارا دشمن ملک بھی تھا۔ جن تنظیموں کا اعلان ہوا ان میں سے بعض پر پاکستان نے پابندی لگا رکھی ہے۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں دوستوں کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہئے۔

اسلام آباد( وقائع نگار خصوصی + نیوز ایجنسیاں) پاکستان نے برکس سربراہ اجلاس کا اعلامیہ مسترد کردےا ہے، وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا ہے پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں، پاکستان نے کامیاب آپریشنز کیے جو امریکا، عراق اور افغانستان میں نہ کرسکا، عالمی برادری نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہماری قربانیوں، آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے تحت کارروائیوں کو تسلیم نہیں کیا، پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے، کسی بیرونی جارحیت کا خطرہ نہیں، عوام خوفزدہ نہ ہوں، ہم ہر صورت اپنے وطن کا دفاع کریں گے، پاکستان کی تینوں مسلح افواج انتہائی مستعدی سے ملکی دفاع پر مامور ہیں، ملک کی زمینی، فضائی اور سمندری سرحدوں کی سخت نگرانی کی جارہی ہے۔ ےہ بات وزیر دفاع خرم دستگیر نے قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے دفاع کے اجلا س میں برکس سربراہ اجلاس کے اعلامیے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں، پاکستان برکس سربراہ اجلاس کے اعلامیہ کو مسترد کرتا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے اجلاس میں وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا کہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں نہیں افغانستان میں ہیں، افغانستان کے 407 میں سے صرف 60 اضلاع پر افغان فورسز کا کنٹرول ہے، دہشتگرد تنظیم داعش کے معاملے پر پاکستان اور امریکا ایک ہیں۔ وزیر دفاع خرم دستگیر نے بتایا کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف چار اہم ممالک چین، روس، ترکی اور ایران کا دورہ کریں گے جس کے بعد وہ امریکا جائیں گے، پاکستان نے کامیاب آپریشنز کیے جو امریکا، عراق اور افغانستان میں نہ کرسکا مگر عالمی برادری نے آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے تحت کارروائیوں کو تسلیم نہیں کیا۔ وزیر دفاع نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد پاکستان میں غیر ضروری خطرے کی گھنٹیاں بجائی جا رہی ہیں، سیاسی لیڈران موجودہ صورتحال میں جذباتی بیانات نہ دیں، پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے، عوام خوفزدہ نہ ہوں، ہم ہر صورت اپنے وطن کا دفاع کریں گے، پاکستان کی تینوں مسلح افواج انتہائی مستعدی سے ملکی دفاع پر مامور ہیں۔ خرم دستگیر نے مزید کہا کہ روہنگیا کے معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں، جلد پالیسی واضح کریں گے۔شیخ روحیل اصغر کی زیر صدارت اجلاس میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جنرل نکلسن کے پاکستان مخالف بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے الزام تراشی کا سلسلہ بند کیا جائے۔ امریکہ بھی پاکستان مخالف قوت کا کردار ادا کررہا ہے۔ کولیشن سپورٹ فنڈ کئی عرصے سے بند ہے اور کہتے ہیں ڈالر سے ہماری مدد کی گئی، پاکستان کے خلاف جارحیت کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ سیاسی اختلاف کے باوجود ملکی سالمیت کے لئے ہم سب ایک ہیں۔ کمیٹی نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی بھی مذمت کی اور کہا کہ انسانیت پر کہیں بھی ظلم ہو اس کی مذمت کرنی چاہئے۔ کمیٹی نے میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام کیخلاف مذمتی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کرلی۔ دریں اثناءکمیٹی نے ممبر اسمبلی رومینہ خورشید عالم کا نیشنل سنٹر فار کاﺅنٹرنگ پر تشدد انتہا پسندی بل 2017 کابینہ ڈویژن کو بھجوا دیا۔ علاوہ ازیں ترجمان دفتر خارجہ نے جنوبی ایشیا میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار جیسی تنظیمیںپرتشدد کارروائیوں کی ذمہ دار ہیں، ان تنظیموں نے پاکستان میں کئی پرتشدد کارروائیاں کی ہیں۔ برکس سمٹ اعلامئے پر اپنے ردعمل میں دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کو جنوبی ایشیا میں بڑھتی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرے پر شدید تشویش ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن