اسلام آباد (صباح نیوز) سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمات میں وکلاءکے پیش نہ ہونے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ وکلاءان قیدیوں پر رحم کریں جو بری ہونے کے حقدار ہیں۔ کسی ٹھوس وجہ کے علاوہ وکیل کی التواءکے لئے دائر درخواست قبول نہیں ہو گی۔ عدالت نے ایک ملزم کے وکیل کو پیش نہ ہونے پر شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے وضاحت طلب کر لی ۔ ملزم محمد عثمان پر اوکاڑہ میں 2005ءمیں ایک تسلیم نامی خاتون کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ جسٹس دوست محمد خان کا کہنا تھا کہ پنجاب کی ٹرائل کورٹس کی جیبوں میں سزائے موت پڑی ہوتی ہے حقائق کو دیکھے بغیر سزا اٹھا کر دے دی جاتی ہے۔ کوئی ایک کیس ایسا بتایا جائے جس میں شک کا فائدہ دے کر ملزم کو بری کیا گیا ہو۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ عدالت نے اس مقدمہ میں ملزم کے وکیل سے وضاحت طلب کرتے ہوئے سماعت اکتوبر کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔ ایک اور ملزم زوہیب کے مقدمہ میں وکیل کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے قرار دیا کہ وکلاءنے اگر یہ رویہ روا رکھنا ہے تو بار کے قواعد میں تبدیلی کی جائے۔ جسٹس دوست محمد خان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ان مقدمات کی سماعت کی۔ التواءکی درخواست پر جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب سمیت ملک بھر کی جیلوں میں 100 آدمیوں کی جگہ 500 قیدی ٹھونس دیئے گئے ہیں۔ ان قیدیوں پر رحم کیا جائے جو بری ہونے کے حقدار ہیں ان کو بری کیا جانا چاہئے قیدیوں کی سزا¶ں پر کیوں کمپرومائز کیا جاتا ہے۔ لوگ ملک کے دور دراز علاقوں سے پانچ چھ روز کا طویل سفر کر کے عدالت آتے ہیں لیکن یہاں وکلاءالتواءکی درخواست دے دیتے ہیں۔ اب اس نظام کو پٹڑی پر چلانا ہو گا تاکہ عدالتی کام کو بریک نہ لگے۔ آئندہ کسی وکیل کو کمردرد کے عذر کی بنا پر التواءنہیں دی جائے گی۔ انہوں نے کہا ایک ایسا بھی ملزم تھا جس کی کمر میں درد تھا اور وہ باہر جا کر گالف کی شارٹس کھیل رہا ہے۔ اس کھیل میں تو پورا جسم ملوث ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وکلاءغیرضروری التواءسے گریز کریں کیونکہ قتل کے مقدمات میں شہریوں کی آزادی کا سوال ہوتا ہے۔ اگر بے قصور کو ایک گھنٹہ بھی جیل میں رکھا جائے تو یہ ظلم ہو گا۔ لوگ 10,10 سال سے جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں کیا ان کاحق نہیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ عید منائیں؟ جسٹس دوست محمد خان نے کہا خدا نخواستہ اگر کسی وکیل کو جیل جانا پڑ جائے تو اسے لگ پتہ جائے۔ سیاسی لوگ جیل میں جاتے ہیں تو جیل کے حوالے سے اصلاحات لانے کی باتیں کرتے ہیں لیکن باہر آ کر بھول جاتے ہیں۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ تمام وکلاءکو یہ وارننگ دی جاتی ہے کہ آئندہ اس طرح کی درخواستوں میں التواءنہیں ملے گا۔ وکلاءکو احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ عدالت نے مقدمات میں تمام وکلاءاور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملزم کے وکیل نہ آئے تو ایڈووکیٹ آن ریکارڈ تیاری کر کے آئیں کیس کسی صورت ملتوی نہیں ہو گا۔ عدالت نے قتل کے مقدمات میں 14 سال سے قید ملزمان جنید اور شوکت کو بری کرنے کا حکم دیدیا۔
جیلوں میں 100 کی جگہ 500 قیدی ٹھونس دیئے جاتے ہیں، ان پر رحم کیا جائے: سپریم کورٹ
Sep 06, 2017