لان میں بیٹھے دوستوں میں بحث ہو رہی تھی کہ ”نام میں کیا رکھا ہے“ ایک نے کہا نام ہی تو آدمی کی شناخت اور کردار کا محور ہوتا ہے۔ آدمی کی پیدائش سے پہلے ہی اس کی زندگی اس کی عزت اقتدار رزق اور موت کا تعین ہو چکا ہوتا ہے۔ مذکورہ عوامل سارے آدمی کی شناخت و شہرت کا سبب ہوتے ہیں۔ دانشوروں نے ایک قول نقل کیا ہے کہ حضرت محمد مصطفی نے ایک صحابی سے اس کے بچے کے نام کے بارے پوچھا تو جواب دیا گیا بچے کا نام غلام رکھا گیا ہے۔ سرکار دو عالم نے اس نام کو ناپسند فرمایا اور ہدایت فرمائی غلام کاٹنے والا ہوتا ہے، ارزم بولنے والا ہوتا ہے بچے کا نام تبدیل کر کے ارزم رکھ دیا گیا۔
دوسرے دوست نے کہا ہم نے خود دیکھا ہے کہ علم کے شہر (محمد مصطفی) اور علمی دروازہ (علی کرم اللہ وجہہ) کے اسماءبابرکت کی نسبت سے رکھے گئے نام محمد علی جناح نے عالمی شہرت پائی۔ محمد محمود عالم (ایم ایم عالم) نے عالمی سطح پر ہوائی جنگی معرکہ انجام دینے سے بھی اس حقیقت کی تائید کی ہے کہ آدمی کی معاشرتی زندگی میں اس کا نام بھی بڑا اہم کردارادا کرتا ہے۔ عالم صاحب ائیر ہیڈ کوارٹرز میں اسسٹنٹ چیف آف ائیر سٹاف تھے ا ور وہ پشاور میس میں ہی ٹھہرے ہوتے تھے۔ راقم کی پوسٹنگ AHQ پشاور ہوئی۔ رہائش میسر نہ ہونے کی وجہ سے میں بھی پشاور میس میں ہی ٹھہرا ہوا تھا۔ عالم صاحب سرکاری گاڑی استعمال نہیں کرتے تھے کیونکہ میس سے ان کے آفس کا فاصلہ کوئی زیادہ نہ تھا۔ AHQ دفاتر ڈیڑھ بجے بند ہو جاتے مگر عالم صاحب اڑھائی بجے سے پونے تین بجے تک میس پہنچتے بغل میں ڈھیر ساری کتابیں اُٹھائے ہاتھ میں بریف کیس تھامے میس پہنچتے۔ ڈائننگ روم کے بڑے ہیڈ ٹیبل پہ بیٹھ کر کھانا کھاتے ان کے دیوانے جونیئر آفیسرز ان کے پاس جا کر بیٹھ جاتے اور ان کی باتیں سنتے۔ عالم صاحب کئی بار پانچ پانچ بجے تک وہیں بیٹھے لوگوں کو اپنے مطالعے اور تجربے سے مستفیض فرماتے۔ راقم بھی ا ن سننے والوں میں شامل ہوتا اور غالباً سب سے زیادہ سوال پوچھنے والا یہاں تک کہ عالم صاحب اٹھتے وقت فرماتے ”تو منیر اب اٹھیں کوئی دوسرے کام بھی نپٹا لیں“۔ عالم صاحب چونکہ ایک مطالعہ گزار شخصیت تھے اس لئے ہوا بازی اورجنگی واقعات کے علاوہ ہر موضوع پر گفتگو فرما کر ہماری راہنمائی فرماتے۔ ایک دفعہ میں نے اپنی ڈائری ان کی طرف بڑھاتے ہوئے گزارش کی کچھ تبرک کے طور پر لکھ دیں۔ وہ مسکرائے اور بولے ”جو شخص کسی کی کانوں سنی بات پر عمل نہیں کر سکتا وہ لکھے ہوئے ضابطے اور قوانین کو بھی فضول ہی جانتا ہے۔“ پھر انہوں نے لکھا ”جب تک تمہیں یہ احساس رہے گا کہ آپ PAF کے آفیسر ہو آپ غلطی نہیں کریں گے جونہی شہزاد منیر بنو گے غلطی پر غلطی کرو گے“ ۔باتوں باتوں میں بات ایماندارانہ رویوں کی طرف چلی گئی۔ عالم صاحب نے فرمایا قوانین اور اخلاقی قدریں ان پر اثرانداز ہوتی ہیں جو انہیں اپنا کر کامیاب زندگی گزارنا چاہیں، ایمانداری کی حدیں بہت وسیع بھی ہیں اور محدود بھی، میرے قریب اگر کوئی سرکاری اہل کار اپنے دفتر کے چپڑاسی کو اپنے گھریلو کام کے لئے بھی اس سرکاری ملازم کو گھر بھجواتا ہے تو وہ بہت بڑی بے ایمانی اور بددیانتی کی بنیاد رکھ کر ثقافتی کلچر کو برائی کی طرف دھکیلنے کا سبب بنتا ہے۔
ائر ہیڈ کوارٹر بکس کلب سے کتاب فضائیہ ون آفیسرز کو جاری ہوتی۔ وہ کتاب میز پر رکھے ہم باتیں سن رہے تھے۔ عالم صاحب نے پوچھا منیر یہ تم نے پڑھی ہے۔ میں نے عرض کیا، کچھ صفحات پڑھے ہیں۔ میرے اس کتاب کے مندرجات پہ کچھ اعتراضات بھی ہیں اور مصنفین (روی راکھی اور پچھیندر سنگھ) کی کتاب ہمیں خصوصی مطالعہ کے لئے دی جانا بھی میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ عالم صاحب بولے Very Good چونکہ عالم صاحب ون فضائیہ پڑھ چکے تھے کہنے لگے ہندوستان 1965ءمیں پاک فضائیہ کے ہاتھوں ذلیل و بے عزت ہونے اور اپنی تباہی کے زخم ابھی تک چاٹ رہا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے پاکستانی ہوا بازوں کے دعوﺅں کا ذکر کر کے اپنی خفت مٹانے کی کوشش کی ہے پھر انہوں نے ہمارے ہوا بازوں ا ور دیگر آفیسرز میں یہ تاثر پھیلانے کی کوشش بھی کی ہے کہ جو جہاز پاکستان کے دعوﺅں کے مطابق تباہ ہو گئے تھے وہ تو آج بھی ہندوستان کے ہوائی بیڑے میں شامل ہیں۔ دوسرے یہ کہ عالم بےشک اچھا ہوا باز ہے مگر ان سے بہتر سرفراز رفیقی تھے۔ مطلب یہ کہ پاکستان کے نوجوان ہوا بازوں کے دلوں میں اپنے سینئرز کے بارے میں ایک منفی احساس پیدا کیا جائے، مزید فرمایا پاک فضائیہ کی برتری اور کارکردگی 1965ءمیں کسی شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ انشاءاللہ ہندوستان پاک فضائیہ کا نام سن سن کر شرمندہ ہوتا رہیگا۔ مٹھیاں بھینچا کریگا مگر کر کچھ نہیں سکے گا۔ 1983ءمیں عالم صاحب ریٹائر ہو کر شاہراہ فیصل بیس کی میس میں شفٹ ہو گئے۔
عالم صاحب کا کتاب بینی کا شوق اس حد تک تھا کہ ان کا ذاتی سامان تو ایک چھوٹے ٹرک میں ان کی بہن کے گھر بھجوایا گیا (راقم اس وقت بیس شاہراہ فیصل پر تھا اور انہیں انتظامی سہولتیں فراہم کرنا بھی میرے ہی فرائض میں شامل تھا) جبکہ کتابوں کیلئے دو بڑے ٹرک استعمال کئے گئے۔
آج میں جب اپنے سینئرز اورلی جنڈ ہوا باز اور قابل تقلید آفیسر ایم ایم عالم کی صحبتوں میں تصور کی آنکھ سے دیکھتا ہوں تو فخر و شکر اللہ سے دل کو معمور پاتا ہوں کہ میں ایسے کمانڈر سے نصیحت و راہنمائی لینے والوں میں ایک ہوں۔
”ہیرو پائلٹ ایم ، ایم عالم کا نظریہ قیادت“
Sep 06, 2018