6ستمبر کا یادگار دن ہماری ملی اتحاد کا واضح ثبوت پیش کرتا ہے اور اس بات کا احساس پیدا کرتا ہے کہ جب بھی کسی غیرقوم نے ہماری طرف آنکھ اٹھائی تو ہم نے اس باہمی اتحاد کا مظاہرہ کر کے اس کو شکستِ فاش دی۔جنگ ستمبر نام ہے ان رشتوں کا ،ان خدمات کا ،ان سوچوں کاجو قوم خالص جذبہ حریت اپنی غیرت کو للکارنے والی قوم سے لڑ کر پیدا کرتی ہے ۔اس تاریخ ساز دن کی تجزیہ بندی کی جائے تو اس کے مضمرات اور فوائد کا اندازہ لگانا کوئی خاصا مشکل کام نہیں ہے کیونکہ قوم جانتی ہے کہ کس طرح ست رام کے فرمانبرداروں کو اپنے زخم چاٹنے پر مجبور کیاگیا۔ہماری مسلح افواج اورعوام کا جذبہ تاریخ میں رقم ہے۔
جنگ ستمبر کی میجربیگم نصرت جہاں بیگ بتاتی ہیں کہ”ہسپتال میں آپریشن کی میز پر پاک فوج کے زخمی غازیوں کے نعرے اور ان کا بے ہوشی میں اُٹھ اُٹھ کر محاذوں پر جا پہنچنے کے لیے تڑپنا اورچلانا میں کبھی نہیں بھول سکوں گی۔ ان کے ولولہ انگیز نعرے ابھی تک میرے ذہن میں گونج رہے ہیں یہ گونج میرے خیالوں ،میرے تصوروں اور میری زندگی کا جزو بن گئی ہے“بیگم نصرت جہاں کے انداز اور لب و لہجے میں حرارت اور جذباتیت نمایاں تھیں صاف پتا چلتا تھا کہ اس پروقار عورت کے سینے میں ایک غبار رُکا ہوا ہے جو اندر ہی اندر دُھویں کی صورت میں اُٹھ اُٹھ کر ان کی آنکھوں میں لگ رہا ہے۔دل بھر آتا ہے اور زبان گنگ جاتی ہے آپریشن ٹیبل پر لیٹے ہوئے کسی سپاہی نے نہیں کہاکہ میری ماں،بہن یا بیوی بچوں کو بلا دو یا انہیں اطلا ع دے دو ۔وہ سب محاذ کی باتیں کرتے،اپنے ساتھیوں کی باتیں کرتے،پاکستان کی سلامتی کی باتیں کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔شہیدوں کو آخری سفر پر رخصت کرتے اور غازیوں کے زخم سیتے ہمارے دل پر جو زخم آئے ہیں ان کے نشان گہرے اور ان مٹ ہیں “۔
پاک فوج کے ہر زخمی اور شہید ہونے والے کا ردِعمل،تاثرات اور احساسات ایک جیسے تھے ۔ایک زخمی سپاہی کو لایا گیا توپ کا گولا اس کے قریب آ پھٹا تھا اس کے جسم کی بوٹیاں باہر آرہی تھیں جسم کا کوئی حصہ سلامت نہیں تھا تمام زخم گہرے تھے ۔اسے آپریشن ٹیبل پر ڈالا اور اس کے قیمہ کیے جسم میں خون ڈالنے کی کوشش کی مگر وہ خون زخموں کی راہ بہنے لگا ۔وہ ہوش میں آگیا اور اُٹھ کھڑا ہوا، باہر کو چل پڑا اسے روکنے کی کوشش کی اس نے نرس کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا اور بولا ،تم مسلمان ہو؟مسلمان ہو تو کلمہ پڑھو۔اس نے کلمہ پڑھا اور زخمی کو دوبارہ آپریشن ٹیبل پر لیٹانے کی کوشش کی وہ غضب آلود لہجے میں بولا! تم مسلمان ہو اور مجھے لیٹنے کو کہ رہی ہو ؟ جانتی ہو محاذ پر کیا قیامت مچی ہوئی ہے ؟میری ٹینکوں اور گاڑیوں کو پٹرول دینے کی ڈیوٹی ہے،معلوم نہیں میری جگہ کوئی پیٹرول دینے والا ہے یا نہیں۔خدا کہ لیے مجھے جانے دو۔ٹینکوں کو پٹرول کون دے گا ؟ٹینک رُک گئے تو دشمن نہیں رُکے گا ۔دشمن کو نہ روکا جانتی ہو کیا ہوجائے گا ؟،خدا کے لیے مجھے جانے دو،مجھے اپنی ڈیوٹی پر جانے دو۔۔۔۔اور وہ مجاہد بے ہوش ہوگیا۔اسے بچانے کی سر توڑ کوشش کی گئی مگر وہ اپنی ڈیوٹی سے ہمیشہ کے لیے سبکدوش ہوگیا۔
بیشتر زخمی جوانوں میں ایک ایسا غازی آیا جس کی ٹانگ پر ترچھی گولی لگی تھی لیکن دوسری طرف سے باہر نہیں نکلی تھی ۔وہ چلا رہاتھا کہ گولی میرے سینے میں لگی ہے یا نہیں ؟میں نے اپنی ماں سے وعدہ کیا تھا۔ وہ چلاتا اور بے ہوش ہوجاتا ۔گولی نکالنے کے لیے اس کی ٹانگ کا آپریشن کیا تو گولی کا سراغ نہ ملا بہت حیرانگی تھی کے گولی ٹانگ میں سے کہاں گئی ؟وہ مجاہد پھر ہوش میں آیا کہنے لگا کہ میں نے 1947کا سینے میں رُکا غبار نکال لیا ہے مگر دکھ ہے میں بہت جلدی زخمی ہو گیا اور دوسرا یہ کہ گولی لگنی ہی تھی تو میرے سینے میں لگتی ۔میری ماں فخر سے یہ کبھی نہیںکہہ سکے گی کہ میرے بیٹے نے سینے میں گولی کھائی ہے ۔ ڈاکٹر اس کی ٹانگ کا آپریشن کر کے گولی تلاش کرتے رہے لیکن گولی نہ ملی زخمی مجاہد روتا اور چلاتا رہا ۔تھوڑی ہی دیر بعد اس کی سانسیں اُکھڑ گئیںاور وہ شہید ہوگیا۔ سب حیران تھے کہ ٹانگ کے زخم سے موت کیسے واقع ہوگئی؟گولی کا سراغ لگانا شروع کیا تو دیکھا کہ گولی ترچھی آئی تھی جو اس کی ٹانگ سے ہوتی ہوئی پیٹ سے گزری اور سینے میں جا رُکی۔وہ یہ افسوس لے کر شہید ہوگیا کہ گولی اسے سینے میں نہیں لگی۔ لیکن یہ اسے اور کسی کو معلوم نہ تھا کہ گولی اس کے سینے میں پہنچی ہوئی تھی جس نے اس کی جان لی۔جنگِ ستمبرمیں ہمارے جانباز فوجیوں کا اصلی رُوپ سامنے آیا ۔یہ بے ہوش سپاہی زخموں سے چور،نقاہت سے نڈھال ،جانے اتنی طاقت کہاں سے لے آتے تھے ۔ان کے نعروں کی گونج سے سب دہل جاتا تھا۔دن رات بے ہوش اور نیم بے ہوش زخمیوں کے نعرے گونجتے رہتے تھے،ان کا لا شعور میدانِ جنگ میں لڑ رہا ہوتا تھا وہ چلاتے تھے۔نعرہ تکبیر ۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر ۔۔۔۔۔پاکستان زندہ آباد۔۔۔۔۔۔بولو نعرہ حیدری۔۔۔۔۔۔۔یا علیؓ۔
پاک فوج کے ان شہیدوں کی قربانیوں سے معمور آج کا دن ملی یک جہتی کا دن ہے اور یہ اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ مل جل کر قوم کا دفاع صرف اور صرف سچے جذبے کی بنیاد ہے۔سیاست دان اگر مل جل کر اپنے اندر یہ جذبہ پیدا کر لیں کہ وہ قومی وحدت پر کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے تو عین ممکن ہے کہ قائد اعظمؒ اور علامہ اقبال کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے گا۔