جذبہ شہادت ہماری بقا کا ضامن‘ سرحدوں کی حفاظت کرنے والے شہدا پر فخر ہے

لاہور (خصوصی رپورٹر) پاکستان دین اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اور اس کی حفاظت ایک مقدس مذہبی فریضہ ہے۔ پاکستان کی افواج وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کیلئے جو خدمات سرانجام دے رہی ہیں اس پر ہر پاکستانی کو فخر ہے۔ آج پوری قوم اپنے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے، ہمیں ان شہداء کی قربانیوں پر فخر ہے ۔ پاک بحریہ کے تربیتی اداروں میں دیگر ممالک کے افسران اور کیڈٹس کی تربیت اس کی پیشہ ورانہ مہارت اور قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان خیالات کا اظہار تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے پاکستان نیوی وار کالج لاہور میں زیرتربیت 110 ملکی و غیر ملکی افسران کے دورۂ ایوان کارکنان تحریک پاکستان کے موقع پر ان سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے بورڈ آف گورنرز کے رکن اور ممتاز قانون دان جسٹس(ر) خلیل الرحمن خان، چیف کوآرڈی نیٹر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ میاں فاروق الطاف، سینئر نائب صدر سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز افتخار علی ملک، نوجوان دانشور میاں سلمان فاروق، پاکستان نیوی وار کالج کے کیپٹن معظم نواز خان، کیپٹن عمر اور کیپٹن ریحان ، نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید بھی موجود تھے۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض سید عابد حسین شاہ نے انجام دیئے۔ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے کہا کہ یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا۔ تحریک پاکستان کے دوران مسلمانان برصغیر قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں متحد ہو گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر طرح کے وسائل سے نواز رکھا ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت بھی مسلمہ ہے اور پوری دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ہمارا ادارہ پوری قوم بالخصوص نئی نسلوں کو دوقومی نظریہ، تحریک پاکستان ، مشاہیر تحریک آزادی کی حایت وخدمات اور قیام پاکستان کے اسباب ومقاصد سے آگاہ کر رہا ہے۔ نوجوان دانشور میاں سلمان فاروق نے کہا ہمیں اپنی افواج پر فخر ہے، پاکستان کی بہادر افواج وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ یہ ملک ایک نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا اور علامہ محمد اقبالؒ نے الگ ملک کا خواب دیکھا جسے قائداعظمؒ نے حقیقت کا روپ دیا۔ ہندو اور مسلمان ہر لحاظ سے الگ قوم ہیں اور یہی وہ دوقومی نظریہ ہے جس کی بنیاد پر پاکستان معرض وجود میںا ٓیا۔ اس ادارہ کے فرائض میں نظریۂ پاکستان کی نشر و اشاعت‘ قومی تاریخ کی ترتیب و تدوین‘ علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فکر و عمل کی ترویج شامل ہیں۔ غلام حیدر وائیں کے بعد قائداعظمؒ ہی کے ایک اور سپاہی اور رہبر پاکستان مجید نظامی نے اس ادارے کے چیئرمین کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور اس میں نئی روح پھونک دی۔ یہ ادارہ تحریک پاکستان کی یادداشتوں اور قیام پاکستان کے لیے کی گئی جدوجہد اور قربانیوں سے متعلق دستاویزات کا ریکارڈ محفوظ کر رہا ہے۔ اس کا منصوبہ ایوان قائداعظمؒ مکمل ہو چکا ہے جو انشاء اﷲ قائداعظمؒ کے افکار کے ابلاغ کا عالمی مرکز ثابت ہو گا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی زیر صدارت منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں 23 مارچ 1940ء کو قرارداد لاہور منظور ہوئی جس کے ذریعے مسلمانوں کے لیے ایک سمت اور منزل کا تعین ہو گیا اور محض سات برس کے عرصہ میں انہوں نے اپنے لیے ایک الگ مملکت حاصل کر لی۔ قائداعظمؒ اسے دین اسلام کی ایک تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے۔افتخار علی ملک نے کہا کہ قائداعظمؒ نے ہمیں ’’ایمان ، اتحاد ، تنظیم‘‘ کا درس دیا۔ پوری قوم بالخصوص نئی نسلیں قائداعظمؒ ،علامہ محمد اقبالؒ اور مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی حیات وخدمات کا مطالعہ کرے۔ مشاہیر تحریک آزادی نے اپنا تن من دھن پاکستان پر قربان کر دیا تھا۔ پاک فوج ملکی سرحدوں کی حفاظت کیلئے بے مثال قربانیاں دے رہی ہے ، پاکستان کی افواج کا شمار دنیا کی بہادر اور بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ نیوی وار کالج کے کیپٹن معظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ پاکستان کی نظریاتی اساس کے تحفظ اور اس کی ترویج واشاعت کیلئے قابل قدر کام کر رہا ہے۔ ہماری اول وآخر شناخت پاکستانی ہے اور ہمیں اس پر فخر ہے۔ یہ ادارہ پوری قوم کو اس ملک کی خاطر دی جانیوالی قربانیوں سے آگاہ کررہا ہے۔ اس ادارے کے دورہ کا مقصد اپنی شناخت کو پہچاننا اور بجا طور پر اس پر فخر کرنا ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں ہماری شناخت ہے۔ دورہ کے اختتام پر پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے کیپٹن معظم کو نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی شیلڈ اور مطبوعات کا سیٹ پیش کیا جبکہ کیپٹن معظم نے پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد کو پاکستان نیوی کی یادگار یشیلڈ اور مطبوعات کا سیٹ پیش کیا۔ قبل ازیں وفد کے اراکین نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں موجود تحریک پاکستان کی تصویری گیلری بھی دیکھی اور اس میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...