چھ ستمبر، قوم کی صبح زندگی کی شفق

میں صبح تین بجے توپوں کی گھن گرج سن کر جاگ گیا تھا۔ اسلامیہ پارک کے ایک کمر ے میںمیرے ساتھ میرے بڑے بھائی میاں محمد بھی تھے۔ وہ ہیلے کالج سے بی کام کر رہے تھے اور میں گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھا۔ ہمارے کمرے کے سامنے رشید بیکری تھی جس پر رش لگا ہوا تھا، لوگ درجنوں کے حساب سے ڈبل روٹیاں، انڈے اور سیروں کے حساب سے بسکٹ وغیرہ مانگ رہے تھے مگر دکاندار کا لہجہ بڑا شانت تھا۔ اس نے ہر ایک سے کہا کہ مجھے معلوم ہے آپ ہر روز کیا کچھ خریدتے ہو۔ اس سے زیادہ نہیں دوں گااور اطمینان رکھئے کہ میرے پاس تین ماہ تک اشیاء سپلائی کرنے کی سکت موجود ہے۔
میں نہا دھو کر کالج کی طرف چل دیا۔ راستے میں چوبرجی سے پہلے ایک ٹینٹ سپلائی کرنے والے کی دکان تھی جس پر ایک جم غفیر دکھائی دیا۔ میں بھی رک گیا۔ پتہ چلا کہ فیلڈ مارشل ا یوب خان قوم سے خطاب کرر ہے ہیں۔ آخر میں جب انہوںنے کہا کہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو تو ساتھ ہی فضا نعرہ تکبیر اللہ اکبر سے گونج اٹھی۔میں کالج پہنچا۔تو کچہری والے گیٹ کے سامنے مجھے اپنے گائوں کاایک دکاندار محمد ایوب دکھائی دیا۔ میں نے پوچھا کہ جنگ لگی ہے اور تم لاہور کیسے پہنچ گئے۔ کہنے لگا کہ ہاں ۔ راستے میں دو تین جگہ بھارتی ہوائی جہازوں کے نشانے سے میری بس معجزانہ طور پر محفوظ رہی ۔ کچہری میں کسی مقدمے میں میری پیشی ہے۔ کالج میں ابھی پہلا پیریڈ ہی پڑھا تھا اور دوسرے کے لئے کمرہ ڈھونڈ رہا تھا کہ لاہور کی فضا میں زور دار دھماکے کی گرج سنائی دی۔ یہ آواز کسی ہوائی جہاز سے ا ٓئی تھی جو باٹا پور یا داروغہ والے کے اوپر پرواز کرر ہا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ پاک فضائیہ کا ہوا باز ایم ایم عالم تھا جس نے دشمن پر دھاک بٹھانے کے لئے اسٹار فائٹر ایف ایک سو چار کا سائونڈ بیریئر عبور کیا تھا۔ کالج سے فارغ ہو کر میں انارکلی چوک میں شیخ حمید کے آیئڈیل بک ہائوس چلا گیا جہاں پروفیسر قیوم نظر کے روائتی قہقہے بلند ہو رہے تھے۔ ان کے پاس سید امجد الطاف ، پروفیسر اصغر سلیم میر اور وحید رضا بھٹی بھی آ گئے۔ کچھ دیر میں لاہور کی فضائوں میں ڈاگ فائٹ شروع ہو گئی۔ ہر چند پروفیسر قیوم نظر نے مجھے باہر نکلنے سے منع کیا مگر میں نئی انار کلی کی طرف چل دیا۔ بائیبل سوسائٹی کے سامنے دکانوں کی چھتوں کے لیول پر چند جہاز ایک دوسرے پر جھپٹ پلٹ رہے تھے اور سارا شہر مکانوں کی چھتوں پر چڑھ کر بو کاٹا بو کاٹا کے نعرے لگا رہا تھا۔ یہ ایک نرالی جنگ تھی جس کاکسی کو خوف و خطر تک نہ تھا۔ میں واپس آئیڈیل بک ہائوس کی طرف آیا تو کیا دیکھتاہوں کہ مال روڈ پر ادیبوں شاعروں کا ایک جلوس رواں دواں ہے جس کی قیادت پرفیسر اصغر سلیم میر کے بھائی صفدر میر کر رہے تھے۔ وہ اپنی نظم لاہور کو سلام اس طرح گرج کرپڑھ رہے تھے جیسے ایک زمانے میں حفیظ جالندھری شاہنامہ اسلام گنگنایا کرتے تھے۔ صفدر میر کی آواز میں زیر و بم دیکھنے کے لائق تھا ، جیسے سمندر میں تلاطم برپا ہو، وہ کہہ رہے تھے : چلو واہگہ کی سرحد پر۔ وطن پر وقت آیا ہے۔، وطن پہ کٹ کے مر جانے کا یارووقت آیا ہے ۔ یہ نظم بے حد طویل تھی۔ میں پیچھے پیچھے چل پڑا ۔ لاہور ہائی کورٹ کے گیٹ پر پہنچے تو صفدر میر نظم کے آخری بند تک پہنچ چکے تھے۔
میں پھر جلایا جائوں ، میں پھر شہید ہوں
میں پھر جلایا جائوں ، میں پھر شہید ہوں۔
شام کو ریڈیو پر نظام دین نے خون گرما دینے والی باتیں کیں اور پھر خبرنامے کا وقت آیا ۔شکیل ا حمد کی زبان سے خبریں سننے کا الگ مزہ تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ وہ پاک فضائیہ کے کسی جیٹ طیارے کے کاک پٹ سے بول رہے ہوں: ہمارے شاہینوںنے پٹھان کوٹ، ہلواڑہ، اودھم پور ، جموںاور جام نگر کے بھارتی ہوائی اڈوں پرنیچی نیچی پرواز کر کے ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے۔
رات کے وقت ریڈیو پر اعلان ہوا کہ دشمن نے شہر میں چھاتہ بردار اتار دیئے ہیں ۔پھر ایک اور منظر سا منے ا ٓیا ۔ لوگ لاٹھیاں لے کر باغ جناح،شالا مار باغ، قبرستان میانی صاحب ، دربار میاں میر صاحب اور دیگر مقا مات کی طرف لپکے اور جو مشتبہ شخص نظر آیا،ا س کی خوب دھنائی کر دی۔
عجب کہانیاں سننے کو ملتیں کہ سبز کپڑوں میں درویش باٹا پورا ور راوی کے پلوں پر دشمن کے گولوں کو جھولیوںمیں بھر کے غائب ہو جاتے ہیں۔
چھٹی کا دن آیا تو میں بس میں بیٹھ کر قصور کی طرف روانہ ہوا۔ قصور کے بس اڈے کے سامنے کھیم کرن کے گبھرو جوان شہیدوں کو ایک چٹائی پر قطار اند قطار لٹایا گیا تھا۔ کیا نور تھا انکے مٹی سے ا ٹے چہروں پر ۔ کیا جلال تھا ان کی نیم وا آنکھوں میں۔ اور کیا بہشتی مہک تھی جو ان کے بدن سے اٹھ رہی تھی۔انہیں قریب ہی امانت کے طور پر دفن کیا گیا۔
میں اپنے گائوں فتوحی والہ جانے کے لئے کرائے کی ایک سائیکل ساتھ لے گیا تھا۔ قصور سے باہر نکلا۔بابا کمال چشتی کے مزار سے گھاٹی اترا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سڑک کے بائیں طرف کوئی سو گز دور کیسر گڑھ گائوں کے ارد گرد کھیتوں میں بھارتی توپ خانے کے گولے گر رہے ہیں۔مجھے کچھ سمجھ نہ آئی کہ اس علاقے میں بھارت کسے نشانہ بنا رہا ہے کیونکہ ہماری بہادر افواج بریگیڈیئر شامی شہید کی قیادت میں کھیم کرن کو روندتے ہوئے بھارت کے اندر تک گھس چکی تھیں۔اب ویرانے میں بھارتی گولوں کاکیا کام۔ میں پیڈل مارتا گنڈا سنگھ والہ کی طرف چلتا رہا مگر راستے میں بھارتی جہازوںنے ایسا حملہ کر دیا کہ مجھے ایک آڑ لینا پڑی۔ ان جہازوںنے کوئی پندرہ منٹ تک اسٹریفنگ کی۔ ان کا نشانہ ہمارا فیلڈ توپ خانہ اور بی آر بی کے کنارے ہمارے مورچے تھے۔ ہماری انٹی ایئر کرافٹ گنوں کی تڑتڑ جاری رہی ۔ مجھے احساس ہوا کہ آگے بڑھنا خطرے سے خالی نہیں اور میں واپس مڑکر دیپالپور جانے والی سڑک کی طرف نکل گیا۔ میرا خیال تھا کہ اگر میری والدہ اور چھوٹے بھائی رضا اللہ طالب گائوں سے بخیریت نکل چکے ہیں تو فقیریئے والی میں میری پھوپھی کے ہاں پہنچ گئے ہوں گے۔ یہ اندازہ درست نکلا مگر مجھے یہ جان کر افسوس ہوا کہ بھارتی ہوائی جہازوں کے ایک بم سے میری نو عمر پھوپھی زاد بہن شہید ہو گئی تھیں۔ ان جہازوں نے قصور ریلوے اسٹیشن اور کوٹ مراد خان میںبے دردی سے تباہی مچائی تھی۔بہر حال ایک رات والدہ کے ساتھ گزار کر واپس لاہور آ گیا۔ لاہور کا محاذ دشمن کے لئے اہم تھا۔ بھارتی جرنیل نے اعلان کیا تھا کہ وہ شام کا جام مال روڈ پر واقع جم خانہ میں نوش فرمائے گا۔ مگر وائے قسمت۔ اس بھارتی جرنیل کی گاڑی کو پاک فوج کے ایک بریگیڈیئر کی کمان میں ایک ریزرو دستے نے گھیر لیاا ور بزدل بھارتی جرنیل چھلانگ لگا کر گنے کے کھیتوں میں جا چھپا جہاں سے اس کے کور کمانڈر نے اس حال میں نکالا کہ اس کی وردی گیلی مٹی سے اٹی ہوئی تھی اورا س نے اپنے بیج اتار کر کہیں کھیت ہی میں پھینک دیئے تھے۔ جنگ تو سترہ روز بعد ختم ہو گئی مگر دشمن کو سلیمانکی، کھیم کرن ، برکی۔ ہڈیارہ ۔ باٹا پور ، ظفروال اور چونڈہ میں شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا۔دو روز قبل آئی ایس پی ا ٓر کے ترجمان نے کہا ہے کہ قوم کو چھ ستمبر کا دن غازیوں اور شہیدوںکے ساتھ گزارنا چاہئے ۔ بڑی درد ناک اپیل ہے ۔ قوم کو اس پر دھیان دینا چاہئے۔ میں تو گزرے برسوں میں محافظ لاہور جنرل سرفراز اور فاتح کھیم کرن برگیڈیئر شامی کے گھر میں درجنوں مرتبہ جاتا رہا ،۔ چونڈہ میں آرٹلری بریگیڈ کے کمانڈر امجد علی چودھری کے گھر بھی میرا آناجانا رہا ۔ یہ گھر اب لاہور کے کور کمانڈر کے دفتر کے سامنے ہے اور سڑک کو آمدو رفت کے لئے بندکر دیا گیا ہے۔ میں تو طفیل روڈ پر کارگل کے شہید میجر حیدری کے کم سن بیٹے کو دیکھنے بھی گیا جس نے ایک تقریب میں کہا تھا کہ وہ بڑا ہو کر باپ کی طرح شہید بنے گا۔ یقین مانیئے جب میں ا سکے گھر پہنچا تو وہ اسکول میں تھا اور جب وہ گھر واپس آیا تو مجھے نورانی فرشتوں کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ سنائی دی۔ اس بچے کے گرد جیسے نور کا ہالہ ہو۔ اس نور سے میرے قلب و ذہن بھی منور ہو گئے۔ جنگ ختم ہوتے ہی میں برکی کے پل پر میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر کے مورچے میں پہنچا۔ مجھے ہڈیارہ جنگ کے ہیرو میجر شفقت بلوچ سے بھی چندبرس قبل فون پر بات کرنے کاموقع ملا۔ وہ فرما رہے تھے کہ بھارتی جنرل جم خانے میں فتح کا جام پینا چاہتا تھا لیکن میںنے اس نڈھے کوتین روز تک ہڈیارہ کے گندے نالے سے بھی ایک گھونٹ تک نہیں پینے دیا۔ مجھے اکہتر کی جنگ کے شہید ہلال جرات کرنل غلام حسین کے ایڈوانس ہیڈ کوارٹر میں بھی جانے کا موقع ملا جہاں ان کی رائفل پر ان کاہیلمٹ لٹکاہوا تھا جسے دشمن کی مشین گن نے چھید کے رکھ دیا تھا مگر پاک فوج نے ان کی شہادت کے باوجود دشمن کے قلعہ قیصر ہند کا غرور خا ک میںملا دیا۔ ان دنوں کو یاد کرتا ہوں اور اپنے آپ پر ،اپنی باحمیت قوم پر، ملک کے محب وطن شاعروں ادیبوں اور گلو کاروں پر اور ملک کی جری ،دلیر مسلح افواج پر فخر محسوس ہوتا ہے، آج چھ ستمبر کو اس فخر سے میرے جسم کا رواں رواںسرشار ہے۔چھ ستمبر کو پچپن برس ہو چلے ہیں۔ اسی روز میںنے اپنی زندگی کی پہلی تحریر لکھی۔ یہ ایک نظم تھی ۔ اے مرے مرد مجاہد اے مرے زندہ شہید۔ اس نظم کو میں نے بیان الکلیاتی مشاعروںمیں پڑھا۔ میرے ساتھ دائود عزم بھی ہوا کرتے تھے۔ ہم نے ہر مشاعرے سے ٹرافی جیتی۔ اس نظم کی برکت ہے کہ آج یہ تحریر لکھتے ہوئے پورے پچپن برس ہو چلے ہیں۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی مگر مڑ کر دیکھتا ہوں تو یادوں کی ایک فضائے بسیط ہے جس کا احاطہ کرنا میرے بس میں نہیں۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن