زندہ قومیں اپنے مشاہیر، ہیروز کی یادوں کو اپنے خون میں شامل رکھتی ہیں بلکہ یہ کہنے میں مضائقہ نہیں کہ زندہ قومیں اُن کی یادوں سے ہی زندگی کا امرت کشید کرتی ہے۔ پاکستان میں بھی 6 ستمبر 1965 ء یعنی ’’یومِ دفاع‘‘ ایک ایسا دن ہے جس میں ہماری بہادر افواج نے بھارتی افواج کو شکست ِ فاش دے کر میدانِ جنگ سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ 6 ستمبر 1965 ء کی رات کو بزدل بھارتی افواج نے یہ سوچ کر لاہوراور چونڈہ کے محاذوں پر حملہ کر دیا اور اُن کا ارادہ تھا کہ ہم رات کو ہی لاہور فتح کرنے کے بعد صبح جم خانہ لاہور میں جشنِ فتح منائیں گیں۔لیکن بھارتی بھگوڑوںکو کیا خبر شیر چاہے سویا ہی ہو وہ شیر ہی ہوتا ہے۔ان پاکستانی شیروں نے دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجاکر برے ارادے سے آنے والوں کے سری پائے توڑ دئیے۔تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ اُس وقت میجر عزیز بھٹی اور ان کی یونٹ کے جوانوں نے اپنی ہمت اور بہادری کی بنا پر بھارتی افواج کے اس خواب کو خاک میں ملا دیا اسی دوران 12 ستمبر 1965 ء کو لاہور سیکٹر میں برکی کے مقام پر بھارتی ٹینکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیواربنے رہنے والے میجر عزیز بھٹی دشمن کے ٹینک سے نکلنے والے ایک گولے سے شہادت پائی اور’’ نشانِ حیدر‘‘ ان کے سینے کی زینت بنا۔’’نشانِ حیدر‘‘ پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے جو صرف ان فوجی جوانوں کو دیا جاتا ہے جو مادرِ وطن کے لئے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان قربان کرکے جامِ شہادت نوش کرتے ہیں۔اس اعزاز کو حیدرِ کرّار حضرت مولا علی کرم اللہ وجہ کے نام سے منسوب ہے۔اس حوالے سے تحقیق کار جی آر اعوان اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ’’ اُس وقت کے فیلڈ مارشل جنرل ایوب سے کسی نے کہا کہ یہ اعزاز اُن لوگوں کے لئے کیوں مخصوص ہے جو بہادری سے پاک وطن پر اپنی ان نثار کرتے ہیں حالانکہ بہادری کی عظیم مثالیں تو وہ لوگ بھی قائم کرتے ہیں جو زخموں سے چور ہو کر قربانیاں دیتے اور غازی کہلاتے ہیں انہیں بھی نشانِ حیدر کے اعزاز سے نوازنا چاہیے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے جنرل ایوب کہنے لگے وہ بہادر جو قربانیاں دیتے ہیں،زخم کھا کر غازی بنتے ہیں اور زندہ رہتے ہیں اُن کے بارے میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ باقی زندگی میں کبھی بزدلی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ وطن پر جان لٹانے والوں کو نشانِ حیدر اس لیے دیا جاتا ہے کہ دنیا سے چلے جانے کے بعد ان سے کبھی بزدلی کا خدشہ نہیں ہوتا، اسی لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب نشان صرف بہادی سے جان دینے والے شہیدوں کو دیا جاتا ہے۔ اسی شہادت کے متعلق شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنی ولولہ انگیز شاعری میں اس با ت کی کیا خوب ترجمانی کی ہے کہ:
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کُشائی
اس جنگِ عظیم میںپاکستان افواج کے دیگر درخشندہ ستاروں میں ایک ایسا ستارہ جو اپنی جرات اور بہادری کے دم پر پاکستان کی قوم کا قومی فخر کہلایا ۔میری مراد محمد محمود عالم جنہیں دنیا اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم کے نام سے جانتی ہے۔ انہوں نے 1965 ء کی جنگ میں مختلف محاذوں پر کل گیارہ بھارتی طیاروں کو تباہی سے دوچار کیا جن میں ۹ مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے ۔ ایم ایم عالم نے اپنی جرات اور بہادری سے یہ ثابت کیا کہ جنگیں افرادی قوت اور اسلحہ سے نہیں بلکہ ایمانی قوت،صادق جذبوں اور عزم صمیم کیساتھ لڑی جاتی ہیں۔ اسی بنا پرانہوں نے پانچ عدد بھارتی ہنٹر جنگی طیاروں کو ایک منٹ کے اندر مار گرایا۔ اس بہادر جنگجو اور عظیم ہیرو کو تاریخ ساز کارنامے پر ستارہ جرات سے نوازا گیا۔
اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے افواجِ پاکستان کے جوان ہر وقت اس عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے تیار رہتے ہیں ارضِ پاک کو جب بھی ہمارے بہادر سپوتوں کی ضرورت پڑی تو ہمارے جوانوں نے سینے پر گولیاں کھا کر اس بات کو سچ کر دکھایا کہ ’’شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے‘‘ آج جس طرح سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا قتل عام انتہا پسند بھارتی فوج کا مشغلہ بن چکا ہے جو کشمیری قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلی ہوئی ہیں جس پر دیگر ممالک کے حکمران بھی خاموشی اور رکھے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے دونوں ایٹمی طاقتیں ایک بار پھر جنگ کے محاذ پر کھڑی ہیں۔ جس میں یقینا پاکستان 1965 ء کی تاریخ کو ایک بار پھر دُہرا سکتا ہے۔