یوم دفاع پاکستان ۔۔۔۔ سلگتا ہوا کشمیر

پاکستان کے تمام قومی دن پوری قوم ہر سال جوش و خروش اور جذبے سے منائے جاتے ہیں۔ اس بار یوم دفاع پاکستان 6 ستمبر 1965؁ء کی یاد میں ایک نئے تجدید عہد ، جوش ، ولولے اور جذبے سے منایا جا رہا ہے اور یہی جذبہ 6 ستمبر 1965؁ء کی جنگ کے دنوں میں دیکھنے میں نظر آتا تھا۔ جب مسلح افواج پاکستان نے اپنے سے 10 گناہ زیادہ بڑی فوج کو جوش و جذبے کی بدولت ناک و چنے چبوائے نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ مغربی ممالک اور پوری دنیا کے میڈیا نے افواج پاکستان کی بہادری ، دلیری اور کارناموں کی داستانوں کو اول جگہ میں ترجیح دی اور نمایاں سرخیوں کے ساتھ مسلح افواج پاکستان کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے شائع کیا تھا اس جنگ میں پاکستانی فوج کی کامیابی کو پاکستان کی فتح قرار دیا تھا۔ اور بھارتی افواج کی پسپائی کو اس کی فوجی ناکامی قرار دیا تھا۔ کم تعداد اور وسائل کے باوجود اپنے سے کئی گناہ بڑی فوج کو میدان جنگ میں زیر کرنا صرف اور صرف پاکستانی افواج کا کمال تھا۔ جو شاید دنیا کی کسی اور فورس کے نصیب میں نہ آ سکے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلح افواج پاکستان جب بھی میدان میں اتریں کسی کو نقصان پہنچانے کی بجائے اپنے ملک پاکستان کی حفاظت کے لئے۔ پاکستان رمضان المبارک کی ستائیسویں رات کو معرض وجود میں آیا۔ مدینہ شریف کے بعد دوسری نظریاتی ریاست ہے جو کہ دنیا کے نقشے میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آئی۔ جبکہ بھارت میں ہمیں اپنا رقبہ عددی ، برتری ، جنگی وسائل تکبر اور غرور کی بنیاد پر پاکستان کو کمزور سمجھتے ہوئے ترنوالہ بنانے کی کوششیں کیں اور کر رہا ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران ہندئوں کی پوری کوشش تھی کہ پاکستان معرض وجوود میں نہ آئے۔ اگر بن بھی جائے تو اتنا کمزور ہو کہ سازشوں کے ذریعے اس کو ختم کرنا آسان ہو۔ اکھنڈ بھارت ہندوئوں کا خواب رہا ہے۔ اللہ اکبر کا قلب گرمانے والا نعرہ وطن کے دفاع اور لازوال جذبہ ایمانی دوسری کسی غیر اسلامی افواج اور قوم کو حاصل نہیں ہے۔ افواج پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کے دلوں میں بھی ہمیشہ یہ لازوال جذبہ معجزن رہا۔ 1965؁ء کی جنگ میں اس جذبے نے بھارت کو حیران اور پریشان کیا۔ اسے ذلت آمیز پسپائی سے دوچار ہونا پڑا۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے لیکن اب وہ سمجھ چکا ہے کہ جنگ سے پاکستان کو شکست نہیں دی جا سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایٹمی قوت بن چکا ہے۔ اگرچہ اس وقت دونوں ملکوں کے حالات بہت کشیدہ ہیں جس کی وجہ بھارت اور نریندر مودی کی جارحانہ اور توسیع پسندانہ سوچ اور رویہ ہے۔ سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو پس پشت ڈال کر 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کر کے دونوں ایٹمی ملکوں کو مد مقابل لا کھڑا کیا ہے۔ بھارت خود مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں لیکر گیا۔ قرار دادیں منظور کروائیں اور مودی کے سارے سابق حکمران UNO کی قرار دادوں کی تائید و تصدیق اور استصواب رائے کا وعدہ کرتے رہے ۔ مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام اس فیصلے پر سراپا احتجاج ہیں ان کو انسانی بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ ایک ماہ سے بدستور کرفیو لگا ہوا ہے۔ عام لوگ خوراک ، دوائیوں اور بچوں کے دودھ سے بھی محروم ہیں۔ پوری دنیا کا الیکٹرانک میڈیا بھارت کے ظلم اور بربریت کی داستانیں سامنے لا رہا ہے۔ بی جے پی اور نریندر مودی انتہاء پسندوں کا ایسا ٹولہ ہے جس نے نہ صرف پاکستان سے جنگی ماحول پیدا کر دیا ہے بلکہ اندرون بھارت بھی نام نہاد سیکولرزم کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کا بھی جینا دو بھر کر دیا ہے اور ان کیلئے نئے نئے مسائل پیدا کیے جا رہے ہیں۔ بھارت کے جارحانہ رویے کی وجہ سے پاکستان پر بھارتی حملے کے خدشات پیدا ہو چکے ہیں کیونکہ جب بھی بھارتی حکومت کشمیر سے کرفیو ہٹائے گی تو بڑا رد عمل کا خدشہ ہے۔ اندرون کشمیر احتجاج کو بھارت برداشت نہ کر سکے گا۔ اس صورتحال میں پاکستان پر فوج کشی کر سکتا ہے۔ اس صورتحال کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان ہر جگہ ، ہر موقع اور تقاریب میں اس بات کا کھل کر اظہار کر چکے ہیں اور UNO سمیت پوری دنیا کو رابطہ کر کے بھارت کی جارحیت واضح کر رہے ہیں۔ اس عزم کا اعادہ بھی کر رہے ہیںکہ اگر بھارت کی طرف سے کسی قسم کی جارحیت کی گئی تو اس کا بھر پور جواب دیا جائیگا۔ بھارت اور مودی کا رویہ نہ صرف نامناسب بلکہ قابل مذمت ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین نے بھی بھارت کو 5 اگست کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ اس طرح یورپی یونین او آئی سی دیگر بین الاقوامی ملک تنظیمیں اور ادارے بھارت کے ظالمانہ رویے کی مذمت کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ، وزیر خارجہ اور دیگر قومی ادارے صائب رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ دنیا کی توجہ بھارت کی جانب مبذول کروا رہے ہیں۔ امید ہے کہ بھارت خطے کی سلامتی کیلئے انتہائی اقدام سے گریز کریگا۔ ورنہ مسلح افواج پاکستان حکومت اور پوری قوم ایک بار پھر تحریک پاکستان اور 1965؁ء کے جذبے سے سرشار بھارت کو سبق سکھانے کیلئے تیار ہے۔

ای پیپر دی نیشن