اسلام آباد(نیوزرپورٹر)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کوبتایا گیا ہے کہ وزیراعظم ہا ئوس سے ملحقہ زمین پر یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجیز بنائی جارہی ہے جس کا پی سی ون جمع کرا دیاہے، یونیورسٹی میں چار سنٹر بنائے جائیں گے ،جن آرٹیفیشل انٹیلیجنس ،بائیو ٹیکنالوجی ،اور توانائی کے شعبے شامل ہیں، جبکہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی حکام نے کمیٹی کو بتایا ہے کہ گزشتہ سال کے وزارت کے پی ایس ڈی پی کے لیئے 716 ملین جاری ہوئے ،جن میں سے 538 ملین خرچ ہوئے، کمیٹی نے صرف 53 کروڑ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پر خرچ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور بجٹ کے مکمل استعمال کے لیئے پروپوزل تیار کرنے کی ہدایت کر دی۔جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا اجلاس چیئرمین سینیٹر مشتاق احمد کی صدارت میں ہوا، اجلاس کے آغاز میں چیئرمین کمیٹی نے وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کی عدم موجودگی پر حکام سے استفسار کیا کہ وزیر صاحب کہاں ہیں ، پتہ کریں،وزارت کی مشاورت سے ہی اجلاس بلایا جاتا ہے،اجلاس کے دوران وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے مالی سال 2019-20 کے پی ایس ڈی پی پر بریفنگ دی گئی،حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ سال وزارت کیلیئے 1487 ملین مختص کیئے گئے جن میں سے 716 ملین جاری ہوئے ، جبکہ 538 ملین خرچ ہوئے ،چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ٹوٹل چھ ہزار ارب روپے کا بجٹ تھا جس میں سے 716 ملین روپے وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو جاری ہوئے اور 53 کروڑ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پر خرچ ہوئے، یہ تو کچھ بھی نہیں ہیں،بجٹ کے حوالے سے ایک پروپوزل بنایا جائے تاکہ بجٹ کا استعمال ہو،کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی حکام نے بتایا کہ مالی سال 2019-20 کے پی ایس ڈی پی میں 31 منصوبوں کے لیئے 7407 ملین روپے مختص کیئے گئے ہیں، جن میں سے وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اداروں کے 23 منصوبوں کے لیئے 1300 ملین جبکہ ٹاسک فورس کے 8 منصوبوں کے لیئے 6107 ملین روپے مختص کیئے گئے ہیں، وزیر اعظم ٹاسک فورس کے ترجمان شعیب احمد خان نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجیز کا پی سی ون جمع کرا دیاہے یہ وزیر اعظم ہائوس سے ملحقہ زمین پر بنائی جائے گی، یہ ریگولر یونیورسٹی نہیں ہے ، اس میں چار سنٹر بنائے جائیں گے ،جن آرٹیفیشل انٹیلیجنس ،بائیو ٹیکنالوجی ،اور توانائی کے شعبے شامل ہیں،کمیٹی کو بتایا گیا کہ یونیورسٹی پر 55 ارب روپے کی لاگت آئے گی ،جبکہ مالی سال 2019-20 کے پی ایس ڈی پی میں یونیورسٹی کے لیئے 1500 ملین روپے مختص کیئے گئے ہیں،چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آپ کا بجٹ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے زیادہ ہے آپ کی کارکردگی کمیٹی کے سامنے آنی چاہیئے،اجلاس میں پی ایس کیو سی اے کے افسران کی معطلی کا معاملہ بھی زیر غور آیا ، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ابھی تک ایڈوائزری کونسل نہیں بنائی گئی،ایڈوائزی کونسل کے سامنے 2003 سے اب تک کے سارے مسائل رکھے جائیں،رکن کمیٹی پیر صابر شاہ نے سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے استفسار کیا کہ آپ کے 8 سے دس اداروں کے سربراہ نہیں ہیں اس کی کیا وجہ ہے ،سیکرٹری نے جواب دیا کہ وہ ریٹائر ہو گئے ہیں یاان کا کنٹریکٹ ختم ہو گیا ہے، 16 اداروں میں 400 سے زائد ملازمین کا شارٹ فال ہے۔
قائمہ کمیٹی کاوزارت سائنس اینڈٹیکنالوجی پرصرف 53کڑوڑخرچ ہونے پراظہارتشویش
Sep 06, 2019