ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک ،ڈاکٹر مجید نظامی کے دفتر میں تشریف لائے، انہوںنے طنزیہ انداز میں پوچھا، نظامی صاحب ! سنا ہے آپ کو ٹینک پر بیٹھ کر بھارت جانے کا شوق ہے، کیا میں ایک ٹینک بھارت سے بھجوا دوں۔
نظامی صاحب نے کہا، مہاراج، اپنے دائیں ہاتھ دیوار پر آویزاں تصویر کو غور سے دیکھئے، میں آپ کو ایک بھارتی ٹینک پر ہی بیٹھا نظر آئوں گا جسے ہم نے پینسٹھ کی جنگ میں کھیم کرن سے پکڑا تھا۔
جنگ ستمبر کے ایک ہیرو بریگیڈیئر عبدالقیوم شیر ہلال جرات کے انتقال پر میں نے کالم میں لکھا تھاکہ بریگیڈیئر صاحب کے برق رفتار حملے سے بھارتی ڈویژن کمانڈر جنرل نرنجن پرشاد بدحواس ہو کر اپنی جیپ، اور ذاتی ڈائری چھوڑ کر فرار ہو گیا۔
اس دور کے بھارتی وزیر دفاع چون نے اپنی ڈائری میں لکھاہے کہ لاہور کے محاذ پر اچانک حملہ تو کر دیا گیا لیکن بھارتی فوج کے تینوں حملہ آور بریگیڈز سے پچھلے پہر تک رابطہ منقطع ہو چکا تھا۔ان کا اتا پتہ معلوم کرنے کے لئے بھارت کے پندرھویں ڈویژن کے کمانڈر جنرل نرنجن پرشاد نے ایک جیپ پکڑی اور اگلے مورچوں کا رخ کیا مگر وہ پاکستان کے ایک جوابی حملے میں پھنس گئے، جان بچانے کے لئے انہوںنے جبل پور میں تیار کردہ نسان جونگا جیپ سے چھلانگ لگا دی۔انہوں نے اپنی ہائی کمان کو پیغام بھیجا کہ پاکستان نے دو ڈویژن فوج سے جوابی حملہ کر دیا ہے، اس لئے بھارتی فوج کوسرحد سے پیچھے ہٹنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔اس پیغام نے بھارت کی مغربی کمان میں سراسیمگی پھیلا دی اورجنرل ہر بخش سنگھ اپنے کور کمانڈرجنرل جے ایس ڈھلوں کے ساتھ آگے بڑھے، انہوں نے ڈویژنل کمان سے جنرل چودھری کے بارے میں پوچھا مگر سبھی لاعلم تھے، آخر ایک شخص کماد کے کھیت سے باہر آتا دکھائی دیا،اس کے بوٹ کیچڑ سے لت پت تھے، اس کے سینے پر کوئی بیج آویزاںنہ تھا اور سر پر ٹوپی بھی نہ تھی، شیو بڑھی ہوئی، جنرل ہربخش سنگھ نے پوچھا کہ کیا تم ڈویژنل کمانڈر ہو یا کوئی قلی۔ سات ستمبر کی شام کو ریڈیو پاکستان سے جنرل پرشاد کی ذاتی ڈائری سے اقتباسات نشرہونے لگے تو جنرل نرنجن پرشاد سے استعفیٰ لے لیا گیا۔
یہی جنرل نرنجن پرشاد تھا جس نے بد مستی میں کہا تھا کہ وہ چھ ستمبر کی شام لاہور کے جم خانہ میں فتح کا جام نوش کرے گا۔اور اسی جنرل کے بارے میں میجر شفقت بلوچ نے کہا تھا کہ میں اس نڈھے نوں تن دن ہڈیارے نالے دے گندے پانی دا گھٹ نئیں پین دتا۔
پاکستان نے چھمب جوڑیا ںکے محاذ پر بھارت کا بھرکس نکال کر رکھ دیا تھا۔بھارت نے حواس باختگی میں لاہور اور سیالکوٹ پر رات کی تاریکی میں جارحانہ حملہ کر دیا۔یہ بھارت کی بھول تھی کہ وہ پاکستان کو اچانک جا لے گا۔حقیقت یہ ہے کہ رن آف کچھ کے بعد جب شاستری نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ مرضی کے وقت اور محاذ کا فیصلہ کرے گا تو ہماری افواج نے سرحد پر دفاعی مورچے سنبھال لئے تھے،رن آف کچھ کی لڑائی کے دوران میں گنڈا سنگھ والا ہائی سکول کا طالب علم تھا ، ہمارے سکول کے سامنے علی قلی خان کے فوجی دستے مورچہ زن تھے، وہ بارہ بلوچ کے لیفٹین تھے جس کے کمانڈر کرنل آفتاب حسین سے میرا اب بھی ٹیلی فون پر رابطہ رہتا ہے۔میرا گائوں فتوحی والا، بی آر بی کے پار بھارت کی مشین گنوں کی زد میں واقع ہے اور ہمارے کھیتوں میںبارودوی سرنگیں لگا دی گئی تھیں اور جہاں کہیں درختوں کا جھنڈ میسر تھا، اس کے نیچے بھاری اسلحہ اور متحرک راڈار کیمو فلاج کر دیئے گئے تھے۔
چھ ستمبر کی صبح میں لاہور میں تھا، رات گئے توپوں کے شور سے آنکھیں کھل گئیں ،مگر لاہور کی زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی، میں وقت پر گورنمنٹ کالج میں اپنی کلاس میں حاضر ہوا، خالی پیریڈ میں باہر نکلا تو ضلع کچہری والے گیٹ پر مجھے اپنے گائوں کا ایوب دکاندار ملا، وہ کوئی پیشی بھگتنے آیا تھا،اس نے بتایا کہ لاہور قصور روڈ پر بسیں رواں دواں ہیں ، کبھی کبھار بھارتی ایئر فورس کا حملہ ہو جاتا ہے تو بسیں درختوں کی آڑ لے لیتی ہیں۔اسی اثناء میں لاہور کی فضا میں دو دھماکے ہوئے، لوگوںنے سمجھا کہ بم گر گئے ہیں ، بعد میں ریڈیو کی خبروں سے معلوم ہوا کہ ایم ایم عالم کے جہاز نے سائونڈ بیریر توڑا ہے جس سے بعض عمارتوں کے شیشوں کو نقصان پہنچا ہے، اس وقت تک ہماری فضائیہ کے بہادر ہوا باز بھارت کے ایڈوانس ہوائی اڈوں کی اینٹ سے اینٹ بجا چکے تھے۔رات کے وقت یہ حملہ پھر دہرایا گیا اور ریڈیو سے جب نیوز ریڈر کی آواز گونجتی کہ ہمارے ہوا بازوں نے آدم پور، ہلواڑہ،جام پور،امرتسر،اور پٹھانکوٹ پر نیچی نیچی پرواز کر کے ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے تو لاہور کی فضا پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھتی۔بھارت کے اچانک حملے کی منصوبہ بندی اس قدر خام تھی کہ پاکستان کے جوابی اقدام کی توقع تک نہ کی گئی تھی ، یہی وجہ ہے کہ چھ ستمبر کی صبح صرف پٹھانکوٹ کے اڈے پر دو مگ،چار مسٹیئرز، دو ناٹ اور ایک پیکٹ طیارہ کسی مزاحمت کے بغیر ڈھیر ہو گئے۔ ہماری فضائیہ نے واہگہ سے جی ٹی روڈ پر باٹا پور تک کا علاقہ بھارتی ٹینکوں ، توپوں ، مشین گنوں اور جیپوں کا مرگھٹ بنا دیا ، مغربی کمان کے جنرل ہر بخش سنگھ نے سہ پہر کو اگلے مورچوں کا معائنہ کیا تواس نے دیکھا کہ بعض فوجی گاڑیوں کے انجن چل رہے تھے لیکن ان کے ڈرائیور فرار ہو چکے تھے۔بھارت کے سامنے لاہور میں نمبر دس ڈویژن دفاع میںمتعین تھا جس کی کمان جنرل سرفراز کے ہاتھ میں تھی، اس ڈویژن کو بی آر بی پر بیس پلوں کی حفاظت کرنا تھی جہاں سے دشمن لاہور کی حدود میں داخل ہو سکتا تھا۔باٹا پور کا پل جی ٹی روڈ پر واقع تھا جسے کرنل آفتاب کے جوانوں نے جان پر کھیل کر بارود سے تباہ کیا، برکی کے پل کے سامنے میجر عزیز بھٹی دشمن کے قیامت خیز فائر کے سامنے ڈٹے رہے اور داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا، انہیںبہادری کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر عطا کیا گیا، بھسین سے بریگیڈئر قیوم شیر نے جوابی حملہ کرکے دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچا دی۔
ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے، تو لبھ دی پھریں بازار کڑے۔
لاہور کی مال روڈ پر صفدر میر ادیبوں اور شاعروں کے جلو میں اپنی برجستہ نظم پڑھ رہے تھے،چلو واہگہ کی سرحد پر، وطن پر وقت آیا ہے، وطن پہ کٹ کے مر جانے کا یارو وقت آیا ہے۔
آئیڈیل بک ہائوس انارکلی کی نکڑ پر واقع تھا، وہاں سے قیوم نظر اور امجد الطاف کے ساتھ میں بھی اس قافلے میں شامل ہو جاتا تھا، صفدر میر کی آواز ابھرتی، میں پھر جلایا جائوں، پھر شہید ہوں ، میں پھر جلایا جائوں ، پھر شہید ہوں۔
چھ ستمبر کی کہانی ایک ایسا رزم نامہ ہے جو شاہ ناموں سے زیادہ گرما دینے والا ہے، کھیم کرن کی فتح اس رزم نامے کا ایک روشن باب ہے جس میں پاکستان نے بڑی تعداد میں بھارتی ٹینک اور فوجی پکڑے،جنرل ہر بخش سنگھ کو اپنی وار ڈائری میں لکھنا پڑا کہ ڈیڑھ لاکھ بھارتی فوجیوں کے ہوتے ہوئے کھیم کرن سے پسپائی ایک شرمناک باب ہے، یہیں سے پکڑے گئے بھارتی ٹینکوں کی نمائش کئی ماہ تک قصور کے سٹیل باغ میں جاری رہی اور ڈاکٹر مجید نظامی نے ایک مقبوضہ بھارتی ٹینک پر اپنی تاریخی تصویر بنوائی۔اسے کہتے ہیں وار ٹرافی!! چھ ستمبر کی قوس قزح کے رنگوں کا جلوہ دیکھنا ہو تو یہ اصل تصویر غازی پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی کے دفتر کی زینت بنی ہوئی تھی۔
٭…٭…٭