چھ ستمبر سے ملاقات

1965ء کی جنگ کو پانچ عشرے سے زائدگزر گئے ہیں لیکن لوگ اس کے نوسٹلجیا سے نہیں نکل سکے۔قومی زندگی کا یہ ایک اہم سنگ میل ہے جس پر آنے والی نسلیں فخر کرتی رہیں گی۔بھارت نے کوشش کی تھی کہ وہ رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے اگلے مورچوں کو روندڈالے اور دن کے دس بجے باغ جناح کے کلب میں بھارتی جرنیل فتح کا جام نوش کرنے کا پروگرام بنا چکاتھا۔
میں ستمبر 65ء میں گورنمنٹ کا لج لاہورمیں سیکنڈ ایئر کا طالبعلم تھا۔ چھ ستمبر کی اوائل صبح توپوں کی گھن گرج سنائی دی تو میں اورمیرے بڑے بھائی میاں محمد اسلامیہ پارک کے کمرے میں ہڑبڑ ا کر اٹھ بیٹھے ۔ہم قصور کے ایک سرحدی گائوں کے رہنے والے ہیں۔اس لئے ہمارے لئے بھارتی جارحیت کوئی زیادہ غیر متوقع نہ تھی۔ہمارے گائوں کے کھیتوں میں کئی مہینوں سے فوج نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔کبھی بارودی سرنگیں نصب کر دی جاتی تھیں اورکبھی اکھاڑ دی جاتی تھیں ۔گائوں کے لوگ ان بارودی سرنگوں کے عادی ہوگئے تھے اور احتیاط سے چارہ وغیرہ کاٹ لیتے تھے۔فوجی بھی کوئی تعرض نہیں کرتے تھے۔ 
میں پیدل گورنمنٹ کالج جا یا کرتا تھا۔ چوبرجی کے قریب ایک دکان پرریڈیو کے گرد کافی لوگ جمع تھے۔ اس وقت صدر ایوب خاں کی تقریر نشر ہورہی تھی۔جب فیلڈ مارشل نے یہ فقرہ ادا کیا کہ جوانو! لاالہ الااللہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو تو ہجوم نے نعرہ تکبیربلند کیا۔میں نے کالج میں ایک دو پیریڈ پڑھنے کے بعد کچہری والے گیٹ سے باہر نکل کر دیکھا ،سڑک پر معمول کی ٹریفک جاری تھا۔کچہری کی طرف سے مجھے اپنے گائوں کے ایک نوجوان محمد ایوب آتے دکھائی دیے۔میں نے ان سے پوچھا کہ گائوں والوں کا کیا حال ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ آج کچہری میں کسی پیشی کے لئے آئے ہیں تاہم صبح سویرے گائوں کے لوگ ضروری سامان کے ساتھ قرب و جوار کے مقامات کی طرف پناہ کے لئے نکل رہے تھے۔ابھی ہم یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ فضا میں دو دھماکے ہوئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ شیر دل ہوا باز ایم ایم عالم نے لاہور کے اُوپر سپیڈ بیریر کو کراس کیا ہے۔ جس سے یہ دھماکے ہوئے ہیں۔ایم ایم عالم نے اہل لاہور کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ گھبرائیں نہیں۔فوج پوری طرح چوکس ہے۔پچھلے پہر میں پرانی انار کلی میں بائیبل سوسائٹی کے پاس کھڑا تھا کہ شہر کے اوپر پاک فضائیہ اور بھارتی حملہ آور طیاروں کے مابین ڈاگ فائیٹ شروع ہو گئی۔لاہور یوں کیلئے یہ کوئی پتنگ بازی کے بوکاٹے والا منظر تھا۔لوگ چھتوں پر چڑھ کر نعرہ تکبیر بلند کررہے تھے۔ کسی کو خوف تک نہ تھاکہ جہاز سے گرنے والا کوئی بم ان کے لئے موت کا پیغام ثابت ہوسکتاہے۔لاہور کی مال روڈ پر ہرروز کوئی نہ کوئی جلوس نکلنے لگا۔ ادیبوں ،شاعروں کے جلومیں صفدر میر اپنی تازہ نظم بلند آھنگ سے پڑھ رہے تھے۔
’’چلوواہگہ کی سرحد پر
وطن پر وقت آیا ہے،
وطن پہ کٹ کے مرجانے کا یارووقت آیا ہے‘‘
صفدر میر جب اس طویل نظم کے آخری مصرعے تک پہنچے کہ 
میں شہید ہوں ،  پھر شہید ہوں‘‘
تو لوگوں کے جذبات سمندر کی طغیانی سے زیادہ تلاطم خیز نظر آتے تھے۔لاہور ریڈیو پر دن رات شاعروں اور ادیبوں کا ایک ہجوم دکھائی دیتاتھا۔ ہر کوئی اپنی تازہ نظم یا تاثرات نشر کرنے کے لئے بے تاب رہتا تھا۔ احمد ندیم قاسمی کی ایک نظم کے اس مصرع کا تاثر آج بھی میر ے لہو میں رچا بسا ہوا ہے
’’چاند اس رات بھی نکلا تھا مگر اس کا وجود 
اتنا بے رنگ تھا جیسے کسی معصوم کی لاش‘‘
 نظام دین نے اپنے پروگرام میں جیسے ہی یہ اعلان کیا کہ بھارت لاہور کے ویران علاقوں میں گھس بیٹھیے  اتاردیئے ہیں توچشم زدن میں اہل لاہور ڈنڈے لے کر میانی صاحب میں گھس گئے۔ خواتین کے ہاتھوں میں کپڑے دھونے والے تھاپے تھے۔ افسوس کسی گھس بیٹھئے سے مڈبھیڑ نہ ہو سکی۔ دشمن محض زندہ دلان لاہور کو ہراساں کرنے کیلئے انٹ شنٹ چھوڑ رہا تھا۔ 
جنگ کے تیسرے روز میں نے سوچا کے قصور جا کر اپنی والدہ اور دیگر عزیزوںکی خیر خیریت معلوم کر آئوں۔ قصور اڈے میں بس سے اتر ا تو سڑک کے کنارے کھیم کرن کے فاتح شہیدوں کی لاشیں قطار اندر قطار پڑی تھیں۔ ان کو امانتاً یہاں دفن کیا جانا تھا۔ شہیدوں کے جسموں کی مہک سے روح معطر ہو گئی۔ نوجوان دھول سے اٹے ہوئے چہروں کے ساتھ یوں لیٹے تھے جیسے ابھی ابھی آنکھ لگی ہو۔
’’خدا کی راہ میں قتل ہونے والوں کو مردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں‘‘۔ 
اور میں نے اس زندگی کا راز پا لیا تھا ترو تازہ نکھرے چہرے جن پر صد رنگ بہاریں بھی قربان جائیں، یہ تھے زندہ شہید۔
محافظ لاہور جنرل سرفراز خاں سے ان کی موت تک سینکڑوں صحبتیں رہیں۔ بریگیڈیئر قیوم شیر، بریگیڈیئر عطا محمد، بریگیڈیئر امجد علی چودھری، کرنل شفقت بلوچ، بیگم شامی شہید سے نیاز مندی رہی۔ اس وقت جب میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں تو میں اپنے کمپیوٹر پر ستمبر 65 کے جنگی نغمے سن رہا ہوں۔
’’ایہہ پتر ھٹاں تے نئیں وکدے‘‘
’’میریا ڈھول سپاہیا، تینوں رب دیاں رکھاں‘‘
’’رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو‘‘
’’اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو‘‘
اور میرے قلم سے آنسو بہہ نکلے ہیں
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن