حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ، مبارک اور انسان ساز محبت نے سرزمین عرب میں ایک روحانی انقلاب پیدا کر دیا۔ وہ خطہ زمینی جہاں بتوں کی پرستش ہواکرتی تھی۔ اور خد کی یاد یاد تک دلوں سے محو ہوگئی تھی۔ اس سرزمین کے باسی عرفان وعبادت کے پیکر بن گئے۔ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کا چین یاد الہٰی سے وابستہ ہوگیا۔ ان کے ہونٹ ذکر سے تر رہنے لگے۔ اور ان کے خیالات کا رخ ہمہ وقت رضاء الہی کی طرف ہوگیا۔ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں ان کے اس ذوق و شوق اور وارفتگی کی خود شہادت دی ہے۔
٭ ’’ایسے لوگ جن کو کاروبار اور خرید وفرخت (کی مشغولیت بھی) خدا کی یاد سے غافل نہیں کرتی‘‘۔ (نور ۔5)٭ (یہ وہ لوگ ہیں) جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (بھی ) اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ (آل عمران۔ ۲۰۰) ٭(یہ وہ لوگ ہیں) جن کے پہلو (رات کو) خواب گاہوں سے علیحدہ رہتے ہیں اور وہ خوف اور امید (کی ملی جلی کیفیت)کے ساتھ اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں۔ (سجدہ ۔2)
٭آپ انہیں دیکھیں کہ (وہ) رکوع میں جھکے ہوئے، سجدہ میں پڑے ہوئے خدا کے فضل اور (اس کی ) رضاء کو تلاش کرتے ہیں۔ (فتح۔4)
عرب کے وہ صحرا نشین جو بڑے سخت دل تھے، اور کہیں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ ان کے دل سوزوگداز سے اس طرح معمور ہوگئے ہیں اور خشیت الہی نے ان کے دلوں میں اس طرح جگہ بنالی ہے کہ ٭وہ لوگ کہ جب (ان کے سامنے) خدا کا نام لیا جائے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں۔ (حج۔۵) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت صالحہ کا فیضان تھا کہ مکہ میں جہاں صحابہ کرام کے لیے کھل کر اپنے اعلان کا کرنا بھی دشوار تھا، وہاں بھی تنہائی اور خلوت ڈھنڈتے تھے ، اور اپنے رب کے حضور میں سجدہ ریز ہوجاتے تھے بالعموم اپنی رات کی تنہائیوں کو اللہ کے ذکر سے آباد کرلیتے۔ ٭آپ کا پروردگار جاتنا ہے کہ آپ دو تہائی رات کے قریب اور آدھی رات اور ایک تہائی رات تک (نمازمیں)کھڑے رہتے ہیں اور آپ کے ساتھ (اہل ایمان کی) ایک جماعت بھی اٹھ کر نماز پڑھتی ہے۔ (مزمل۔۲)اہتمام صلوٰ ۃ کی وجہ سے صحابہ کرام طہارت کا اہتمام کرتے اپنے جسم اور لباس کو پاک صاف رکھتے، قرآن مجید نے ان کے اس ذوق کی تحسین کرتے ہوئے یوں مدح فرمائی: ا س مسجد میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف رہیں اور اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (توبہ۔۱۳)