محبوب احمد
اور بی آر بی نہر روانی سے بہتی رہی
بزدل بھارتی فوج نے رات کی تاریکی میں تین اطراف سے لاہور پر حملہ کیا
پاک افواج نے بہادری سے لڑتے ہوئے ایک ایک انچ کا خوب دفاع کیا: لیفٹیننٹ ہربخش سنگھ
جنگ ستمبر ہو یا کوئی اور آزمائش کی گھڑی قوم اور پاک افواج نے نامساعد حالات، محدود جنگی سازوسامان کے باوجود ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں کہ اقوام عالم ورطہ حیرت میں مبتلا اور دشمن پر سکتہ طاری کر دیا۔ دنیا کے عسکری ماہرین بھی حیران اورپریشان ہیں کہ پاک افواج نے ایسے علاقوں میں جہاں عالمی طاقتیں ناکام ہوتی رہیں وہاں فتوحات کیسے حاصل کیں۔6ستمبر یوم دفاعِ پاکستان جہاں تاریخ کا ایک روشن باب ہے وہیں ہمیں اس دن کی یاد دلاتا ہے جب شجاعت و خوداعتمادی کی دولت سے مالا مال پاک افواج کے جری جوانوں نے سرحدوںکی حفاظت کرتے ہوئے بہادر اورغیور پاسبانوں کی فہرست میں اپنا نام رقم کر دیا، بھارت نے رات کی تاریکی میںکئی انفنٹری ڈویژن ،ٹینکوں اور توپ خانے کی مدد سے 3 اطراف سے لاہور پر حملہ کیا لیکن ستلج رینجرز کے نوجوانوں نے بی آر بی نہر کا پل تباہ کرکے دشمن کے عزائم خاک میں ملا دئیے اس تمام تر صورتحال کو یقینی بنانا کسی طور معجزے سے کم نہ تھا۔
بھارت کے معروف عسکری تجزیہ کار ڈاکٹر چکرورتی گہری و عمیق تحقیق کے بعد ’’دی ہسٹری آف انڈو پاک وار 1965 ئ‘‘ نامی کتاب میں رقمطراز ہیں کہ ’’انڈیا کے لئے رن آف کچھ کا آپریشن ایک جان لیوا ثابت ہوا اسے اپنے سے کئی گنا چھوٹی عسکری قوت کی طرف سے انتہائی صبر آزما اور غیر متوقع مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث 6 ستمبر کے لاہو پر حملے کے بعد بھارت سفارتی سطح پر دنیا میں تنہاء ہوگیا۔ یواین، افریقہ، نان الائینڈ اور ایشیائی ممالک میں بھی کوئی اس کا ہمنوا نہ رہابلکہ سب پاکستان کی پشت پر کھڑے ہوکراس پرجنگ بندی کیلئے دباؤ ڈالتے رہے۔
دفاعی و سفارتی تجزیہ کاروں کے نزدیک معرکہ ٹروٹی دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا باعث بنا کیونکہ اس کے بعد بھارت سمجھ گیا تھا کہ کشمیر اب اس کے ہاتھ سے نکلنے والا ہے۔انڈین جی ایچ کیو اکھنور اور جموں کی راہ میں اس مضبوط ترین مورچے کوایک ناقابل تسخیر دیوار سمجھ رہا تھا لیکن 5ستمبر کو غازیوں نے اس پر پاکستانی پرچم لہرا دیا۔15ستمبر کو وزیراعظم شاستری نے شکست کو واضح دیکھتے ہوئے اپنی عسکری قیادت سے صاف صاف کہہ دیا تھاکہ’’اب وہ مزید عالمی دباؤ کا سامنا نہیں کر سکتے کیونکہ دنیا کے کسی بھی ملک نے ان کی جنگی فتح کے دعوے کو گھاس نہیں ڈالی لہٰذا انہوںنے ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر خود ہی سرینڈر کرنے کا فیصلہ کیااور انتہائی مایوسی کے عالم میں یواین سیکرٹری کو جنگ بندی پر اپنی رضامندی کا لیٹر بھیج دیا جسے تاریخ نویس’’جنگ بندی کی درخواست‘‘ بھی کہتے ہیں۔
امریکی میگزین ’’ ٹائمز ‘‘ کے نمائندہ ’’ لوئیس کرار ‘‘ نے23 ستمبر 1965 ء کے شمارے میں جنگِ ستمبر کے محاذوںکا ذکر کچھ اس انداز سے کیا ’’ میں پاک بھارت جنگ کو شاید بھول جاؤں مگر پاک فوج کا جو افسر مجھے محاذ پر لے گیا تھا اس کی مسکراہٹ کو کبھی نہیں بھول سکھوں گاکیونکہ یہ مجھے بتا رہی تھی کہ پاکستانی جوان کس قدر نڈر اور دلیر ہیں، جوان سے جرنیل تک کو میں نے اس طرح آگ کے ساتھ کھیلتے دیکھا جس طرح گلی میں بچے کانچ کی گولیوں سے کھیلتے ہیںجو قوم موت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا جانتی ہو اسے بھلا کون شکست دے سکتا ہے ؟ ‘‘۔بھارت کے لیفٹیننٹ ہربخش سنگھ نے بھی اپنی کتا ب میں میجر عزیز بھٹی کی جرات و بہادری کا ذکرکرتے ہوئے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستانی افواج نے بہادری سے لڑتے ہوئے زمین کے ایک ایک انچ کا خوب دفاع کیا۔ لاہور میں صرف 150 جوانوں کی ایک کمپنی نے 12 گھنٹے تک ہندوستان کے ہزاروںفوجیوں کو روک کرپاک فوج کو دفاع مضبوط کرنے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔ میجر عزیز بھٹی شہید جو برکی میں کمپنی کمانڈر تعینات تھے مسلسل 5 دن تک بھارتی ٹینکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہے۔آپ کی یونٹ 17 پنجاب103 بریگیڈ کا حصہ تھی جو 10 ڈویژن کا دفاعی بریگیڈ تھااس کمپنی کی2پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھیں۔بھارتی فوج ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ آگ برسا رہی تھی مگر راجہ عزیز بھٹی نا صرف اس کے شدید دبائو کا سامنا کرتے رہے بلکہ اس کے حملے کا تابڑ توڑ جواب بھی دیتے رہے۔بھارتی دعوئوں کی قلعی کھولنے کے لئے لاہور کے محاذ پر ہونے والے حملے کو بھی ہی ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔قصور ، بیدیاں ، برکی ، بھیسن اور مقبول پورہ سائفن پر انڈین آرمی کی 11ویں کور نے جو حملہ کیا اس کا مرکز واہگہ ، باٹا پور اور کچھ دور شمال میں بھینی کے مقام پر تھا۔ بھارتی افواج کی یہ کوشش تھی کہ پاکستانی دستے لاہور کے بڑے دروازے یعنی باٹا پور اور بھینی پر اپنی دفاعی قوت کو مرکو ز نہ کر سکیں۔ طاقت کے نشے میں چور بھارت نے پاک فوج کی توجہ لاہور محاذ سے ہٹانے کے لئے600 ٹینکوں اور ایک لاکھ فوج کے ساتھ سیالکوٹ میں چارواہ،باجرہ گڑھی اورنخنال کے مقام پر چڑھائی کی، عددی برتری کے لحاظ سے دشمن کے پاس بہت اسلحہ تھا لیکن پاکستان کے عظیم سپاہیوں نے مادرِ وطن کی حفاظت کے لئے اپنے سینوں پر بم باندھ کر ٹینکوںکو تباہ دیا۔ ہندوستان کا سب سے بڑا اور خطرناک حملہ سیالکوٹ کے محاذ پر ہوا جس کا مقصد لاہور، گوجرانوالہ شاہراہ کو کاٹنا تھا۔ چونڈہ کا مقام اب بھی’’ ٹینکوں کے قبرستان‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ وطن کے ان بہادر سپوتوں کے کارناموں کی لازوال داستانیں رہتی دنیا تک جرات و بہادری کی جاویداں مثالوں کے طور پر یاد رکھی جائیں گی۔