مادر وطن کی مانگ خُون سے سجانے اور نشانِِ حیدر پانے والے جری شہدا کو سلام

Sep 06, 2022

نشان حیدر 
عبدالستار چودھری

مادر وطن پر اپنی جان نچھاور کرنے والے بہادر سپوتوں کی داستانیں تاریخ کا حصہ ہیں، اگرچہ اپنی جان کی قربانی دے کر دشمن کے ناپاک ارادوں کو ملیا میٹ کرنے والے بہادر جوانوں کی فہرست بہت طویل ہے، تاہم کچھ ایسے خوش نصیب بھی ہیں جن کی بہادری کو دشمن نے بھی تسلیم کیا اور وہ آخری سانس تک وطن کا دفاع کر تے ہوئے  شجاعت وبہادری کے سرکاری اعزارات سے نوازے گئے۔ پاکستان کے سول و فوجی اعزازات میں سے سب سے بڑا اعزاز ''نشان حیدر'' ہے جو اب تک گیارہ خوش نصیبوں کو عطا کیا گیا۔ وطن عزیز میں مئی 1956 سے ملک و قوم کے لئے نمایاں شہری اور فوجی خدمات ادا کرنے والے افراد کو مختلف تمغے دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا ،جس میں ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ''نشان حیدر'' قرار دیا گیابے پناہ بہادری اور زبردست ہمت کا مظاہرہ  کرنے والوں کیلئے اس اعزاز کا نام اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ کے نام پر رکھا گیا۔کیونکہ حضرت علی ؓ میدان جنگ میں اپنی بہادری وکراری کی وجہ سے  اسلام میں ضرب المثل ہیں۔ خود پیغمبر اسلام نے انہیں ''شیر خدا'' کا لقب دیا تھا۔ نشان حیدر برطانیہ کے سب سے اعلی جنگی اعزاز وکٹوریہ کراس، امریکہ کے میڈل آف آنر، فرانس کے لیجن آف آنر اور بھارت کے پرم ویر چکر کے مساوی ہے۔ 
اس عسکری اعزاز کی غیر معمولی انفرادیت اور اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1947میں قیام پاکستان سے اب تک صرف گیارہ شخصیات کو ہی یہ اعزاز ملا ہے ،جن میں کشمیر میںاس کے مساوی ''ہلال کشمیر'' کا اعزازپانے والے ایک سپوت بھی شامل ہیں۔ وزارت دفاع کے حکم پر یہ تمغہ نشان حیدر پاکستان منٹ (وہ جگہ جہاں سکے بنائے جاتے ہیں)  تیار کرتی ہے، اسے دشمن سے چھینے گئے اسلحہ کو پگھلا کر بنایا جاتا ہے جس میں 88فیصد تانبا، 10فیصد سونا اور2 فیصد زنک (جست) شامل کیا جاتا ہے۔ نشان حیدر کا اعزاز بلالحاظ عہدہ پاکستان کی مسلح افواج کے کسی بھی فرد کو دیا جا سکتا ہے ۔ پاکستان میں جن فوجیوں کو یہ اعزاز عطا کیا گیا ہے ان میں سے سات کمیشنڈ افسران کو ملا جبکہ چار  نان کمشنڈ آفیسرز (این سی اوز) یا  جونیئر کمشنڈ افسران (جے سی اوز) کو دیے گئے۔ یہ اعزاز حاصل کرنے والوں میں چار میجر، دو کپتان، ایک پائلٹ آفیسر، ایک نائیک، ایک لانس نائیک، ایک حوالدار اور ایک سوار شامل ہیں۔  پاکستان میں نشان حیدر کا اعزاز پانے والوں میں سے نو کا تعلق پاکستان کی بری فوج جبکہ ایک کا پاکستانی فضائیہ سے ہے۔ پاکستان کی عسکری تاریخ کو دیکھا جائے تو سب سے زیادہ یعنی چار نشان حیدر1971 کی جنگ میں شہید ہونے والوں کو عطا کئے گئے۔ اس جنگ میں بہادری کا مظاہرہ کر کے پاکستان آرمی کے چار نشان حیدر پانے والوں میں سے صرف ایک آفیسر میجر اکرم شہید کو مشرقی پاکستان کے دفاع کے دوران جان دینے پر یہ اعزاز ملا جبکہ دیگر تین شہداء نے پنجاب کے میدانوں میں جنگ لڑتے ہوئے جان مادر وطن پر قربان کی تھی۔ پائلٹ آفیسر راشد منہاس کو 1971 کی جنگ سے قبل نشان حیدر حاصل کرنے والے افسر تھے۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے سب سے کم عمر اور پاکستانی فضائیہ کے  واحد افسر ہیں جنھیں بے مثال شجاعت پر نشان حیدر دیا گیا۔
  سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستانی فوج کی جانب سے نشان حیدر کا اعزاز دینے کا فیصلہ 1999 میں کارگل کی جنگ کے بعد کیا گیا جب کیپٹن کرنل شیرخان اور حوالدار لالک جان ملک کے اس سب سے بڑے فوجی اعزاز کے حقدار قرار دیے گئے۔1971 سے 1999 کے درمیان نشان حیدر حاصل کرنے والوں میں ایک اور نام کا اضافہ بعد میں کیا گیا جو کہ نائیک سیف علی خان جنجوعہ کا تھا۔ جنھیں 14 مارچ 1949کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے اپنا سب سے بڑا فوجی اعزاز ''ہلال کشمیر'' دینے کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ حکومت پاکستان نے ہلال کشمیر کو30 نومبر 1995میں نشان حیدر کے مساوی قرار دینے کا اعلان کیا تو اس فہرست میں نائیک سیف علی کا نام بھی شامل ہو گیا ۔ اب تک کشمیر کے لیے چار نشان حیدر مختص ہوئے ہیں۔ 26 اکتوبر 1948 کو لڑتے ہوئے جان دینے والے سیف علی جنجوعہ کے علاوہ پاکستان آرمی کے جن تین اہلکاروں کو کشمیر میں لڑائی کے دوران ان کی جرأت و شجاعت پرنشان حیدر کا اعزاز ملا، ان میں کیپٹن راجہ محمد سرور، کیپٹن کرنل شیر خان اور حوالدار لالک جان شامل ہیں۔ نشان حیدر پانے والے 11 افراد میں سے صرف ایک فوجی کو یہ اعزاز جنگ کے علاوہ کسی واقعہ میں ملا اور یہ میجر طفیل محمد تھے،جن کا تعلق پنجاب رجمنٹ سے تھا۔ اگست 1958 میں میجر طفیل محمد مشرقی پاکستان رائفلز کے کمپنی کمانڈر تھے جب مشرقی پاکستان کے لکشمی پور ضلع میں ان کی چوکی کو گھیرے میں لے لیا گیا۔میجر طفیل اپنے بنکر میں شدید زخمی ہونے کے باوجود اس وقت تک اپنے دستے کی کمان کرتے رہے جب تک کہ انڈین فوجیوں کو انھوں نے وہاں سے مار نہیں بھگایا اور اسی شام انھوں نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان دے دی۔  نشان حیدر حاصل کرنے والے سب سے پہلے فوجی، کیپٹن راجہ سرور تھے جنھوں نے27 جولائی 1948 کو کشمیر کے محاذ پر جان دی تھی اور ان کا اعزاز 27 اکتوبر 1959کو ان کی اہلیہ نے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ہاتھ سے وصول پایا تھا۔  
نشان حیدر پانے والے تیسرے خوش نصیب میجر راجہ عزیز بھٹی شہید تھے۔ ان کا تعلق بھی پنجاب رجمنٹ سے تھا اور یہ 10 ستمبر 1965کو شہید ہوئے۔ نشان حیدر حاصل کرنے والے چوتھے آفیسر پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید تھے جن کا تعلق پاکستان ایئرفورس سے تھا۔ یہ 20اگست 1971 کو شہید ہوئے۔نشان حیدر پانے والے پانچویں خوش نصیب میجر شبیر شریف شہید تھے ان کا تعلق فرنٹیئر فورس رجمنٹ سے تھا اور یہ 6دسمبر 1971 کو شہید ہوئے تھے۔ چھٹے خوش نصیب سوار محمد حسین شہید تھے جن کا تعلق آرمرڈ کور سے تھا اور یہ 10 دسمبر 1971 کو شہید ہوئے تھے۔ ساتویں نشان حیدر پانے والے شہید افسر میجر محمد اکرم شہید تھے، ان کا تعلق بھی فرنٹیئر فورس رجمنٹ سے تھا اور یہ 15دسمبر 1971 کو شہید ہوئے تھے۔ آٹھویں نشان حیدر حاصل کرنے والے لانس نائیک محمد محفوظ شہید تھے ان کا تعلق پنجاب رجمنٹ سے تھا اور یہ 17دسمبر 1971 کو شہید ہوئے تھے۔ نویں نشان حیدر پانے والے خوش نصیب کیپٹن کرنل شیر خان شہید تھے جن کا تعلق سندھ رجمنٹ سے تھا یہ 7 جولائی 1999 کو کارگل میں شہید ہوئے۔  کیپٹن کرنل شیر خان کی بہادری و شجاعت کا اعتراف ایک ناقابل یقین اور ناقابل تصور ذریعے سے سامنے آیا تھا۔کیپٹن کرنل شیر خان کو کارگل میں اپنے دستوں کے ساتھ قیادت اور معرکہ آرائی کرتے دیکھنے والے بھارتی بریگیڈئیر نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ دعوی کیا تھا کہ انہوں نے کیپٹن کرنل شیر خان کی میت کی جیب میں ایک تعریفی رقعہ اسی وقت لکھ کر رکھ دیا تھا جب کرنل شیر خان کا جسد خاکی پاکستان کی فوج کے حوالے کیا جا رہا تھا۔ اس رقعے میں اس کی بہادری کا اعتراف کیا گیا تھا۔نشان حیدر پانے والے دسویں شہید حوالدار لالک جان شہید ہیں جن کا تعلق ناردرن لائٹ انفنٹری سے تھا اور یہ بھی 7جولائی 1999 کو ہی شہید ہوئے تھے۔ نشان حیدر پانیو الوں کی فہرست میں گیارھواں نام نائیک سیف علی جنجوعہ کا ہے جن کا تعلق آزاد کشمیر رجمنٹ سے تھا اور یہ 26 اکتوبر 1948 کو بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہوئے اور انہیں کشمیر حکومت کی جانب سے ''ہلال کشمیر'' کا ایوارڈ دیا گیا جو بعدازاں حکومت پاکستان نے نشان حیدر کے مساوی قرار دے دیا ہے۔

مزیدخبریں