بھارت کی پاکستان کے خلاف پچھتر سالہ جاحیّت

لائن آف کنٹرول پر فائرنگ سے معصوم شہری بھی جاں بحق ہو رہے ہیں
 تحقیق و تحریر: کرنل(ریٹائرڈ) سید خالد وسیم قادری 
وطن کا تصور اور دفاع  تمام اقوام عالم میں بلا تخصیص مذہب، ملت، معاشرت، معیشت ،جغرافیہ اوررنگ و نسل ایک مقدس مذہبی معاشرتی فریضہ جانا جاتا ہے جس کی ادائیگی کے لیے جوانان وطن کی سرفروشی بہادری جرأتمندی اور جانبازی کی داستانوں سے تاریخ انسانی ابواب در ابواب بھری پڑی ہے۔دیگر اقوام عالم کی نسبت وطن عزیز کادفاع ابتدائی ایام سے ہی سازشوں  اور مشکلات در مشکلات سے دوچاررہا ہے۔تاہم مسلح افواج نے ہمیشہ دلیری جرأت اور ہمت کی ایسی ایسی داستانیں رقم کیں جسے بین الاقوامی سطح پر عسکری تاریخ میںہمیشہ حوالہ بنایاجاتا رہا ہے۔
آزادی سے قبل ہی مسلم اکثریتی علاقوں کا بھارت میں انضمام کر کے پاکستان کے ساتھ  ظلم اورزیادتی کی بنیاد رکھ دی گئی تھی،جس کے بعد سے آج تک دونوں ہمسایہ ریاستوں کے درمیان امن کا قیام اِک چیلنج رہا ہے۔ پاک بھارت کی تاریخ رنجشوں تلخیوں اور  نفرت آمیز رویوں کے ساتھ جہد مسلسل کی  داستان  ہے۔ جہاں دونوں ممالک اگست 1947 میں اپنے قیام سے لے کر آج 2022 تک 75 سال گزر جانے کے باوجود حالت جنگ کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ 1947 میں  بھارت نے آغاز تقسیم پاک و ہند پر ہی اپنی عددی برتری کی بنا پر تقسیم کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے  اکتوبر 1947 میں کشمیر میں اپنی مسلح افواج داخل کر کے جموں کشمیر لداخ پر اپنا غاصبانہ قبضہ قائم کرلیا۔ جوابی طور پر پاکستان اور علاقائی مسلح مجاہدین نے خونریز فوجی کاروائیوں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے 30 فیصد حصے کو بھارتی افواج سے آزاد کروالیا یہ جنگ 1948 کے اختتام پر ختم ہوئی اس جنگ میں پاک بھارت کے 7000 جوان اپنے اپنے وطن پر جانثار اور قریب 17000 زخمی ہوئے۔
بالآخر جنگ بندی ہونے پر دونوں افواج جو جہاں ہے کی بنیاد پر ایک عارضی سرحد بندی پر متفق ہوئیں جو اب لائن آف کنٹرول کہلاتی ہے جسے پاک بھارت مسلح افواج گارڈ کرتے ہیں اور اکثر بیشتر لائن آف کنٹرول کی جانے انجانے خلاف ورزیوں کی بنا پر فائرنگ کا تبادلہ میں افواج کے علاوہ معصوم شہریوں کی ہلاکت معمول کی بات ہے۔ گو 740 کلو میٹر لائن آف کنٹرول کا دو تہائی دھاتی تار کے ذریعے محفوظ بنانے کے بعد خلاف ورزیوں میں کمی آنی چاہیے مگر مکمل خاتمہ بظاہر ناممکن نظر آتا ہے اب بھی بھارت جموں کشمیر لداخ کے قریب 55 فیصد علاقے پر قابض ہے جبکہ 30 فیصد علاقے پر آزاد جموں کشمیر حکومت قائم ہے۔ جس کا اپنا صدر وزیر اعظم اور قانون ساز اسمبلی ریاست کے امور چلاتے ہیں علاقے کا 15 فیصد چین کے تسلط میں ہے جس میں کشمیر، اکسائی چن، ٹرانس کراکرم ٹریکٹ اور ڈیم چوک سیکٹر  شامل ہیں۔ ان علاقوں کے دعوی حق ملکیت کی بنا پر چین بھارت کے مابین 1962 اور 2020 میں جنگ اور سرحدی جھڑپیں ہو چکی ہیں جن کی تفصیلی تاریخ اور حقائق ایک الگ موضوع ہے۔
مسلہ کشمیر یونائیٹڈ نیشنز کی قرارداد کے تحت حل کرنے کی بھارت کی آمادگی کے باوجود آج تک اس پر پیش رفت نہ ہوسکی ۔اس مسئلے پر   ستمبر 1965 میں پاک بھارت افواج  کے درمیان باقاعدہ جنگ ہو چکی ہے۔اپریل  1965 میں بھارتی افواج نے پاکستان کے صوبہ سندھ میں واقع رن آف کچھ پر اچانک حملہ کر کے قبضہ کرلیا ،اس جنگ میںہماری  سپیشل سروسز گروپ کی گوریلا کارروائیوں سے بھارتی لاجسٹکس لائن کٹ جانے کے بعد بھارتی افواج کو بالآخرپسپا ہونا پڑا ۔
اگست 1965 میں آپریشن جبرالٹر کے ذریعے ایک فورس بھارتی مقبوضہ کشمیر میں داخل کی گئی تاکہ مقامی لوگوں کی مدد سے بھارتی قابض افواج کو وہاں سے نکالا  جاسکے ناگزیر وجوحات اور نامساعد حالات واقعات کی بنا پر یہ آپریشن طے شدہ وقت پر اہداف نہ حاصل کر سکا جس کی بنا پر آپریشن گرینڈ سلام کے تحت پاک افواج نے یکم ستمبر کو چھمب سیکٹر میں دشمن افواج پر حملہ کردیا جس کی مسلسل فتوحات  پر پاک افواج کو 4 ستمبر کو اکھنور پر قبضہ کرنے کے قریب پا کر بھارتی عسکری قیادت نے کشمیر میں بھارتی افواج پر پاکستانی افواج کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے بنا وارننگ بین الاقوامی سرحد پر قائم پاکستان کے علاقوں لاھور سیالکوٹ اور سندھ پر 6 ستمبر کی صبح 4 بجے حملہ کردیا۔
1965 ء کی پاک بھارت جنگ عسکری لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہے جس میں پاک افواج نے بے تحاشا جانی مالی نقصان کے باوجود اپنے سے بہت زیادہ بڑی اور طاقتور بھارتی افواج کو بہادری جرات اور جوانمردی سے پے در پے شکست ہزیمت سے دوچار کردیا اور ایک وسیع جنگ میں بھارتی جارحیت اور بڑائی کے خواب کو چکنا چور کر کے اسے ایک عرصے تک اپنے زخم چاٹنے پر مجبور کردیا۔ لاہور اور سیالکوٹ سیکٹر کی کارروائیوں میں دونوں افواج کا شدید جانی مالی نقصان ہوا جس میں لاہور سیکٹر میں موضع برکی میں بی آر بی کینال پر دوران دفاع میجر شفقت بلوچ ستارہ جرات اور میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نشان حیدر کے حقدار ٹھہرائے گئے جب کہ سیالکوٹ سیکٹر کے چھمب جوڑیاں محاز پر بھارتی افواج کی ٹینکوں کی عددی اکثریت کے باوجود پاک افواج نے رسالے کی مدد سے جنگ عظیم دوم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ لڑی جس میں پاک افواج کے جوانوں نے بھارتی ٹینکوں کی عددی اکثریتی حملوں کا زور توڑنے کے لیے، اپنے ٹینکوں اور ٹینک مخالف ہتھیاروں کی کمی پوری کرنے کے لیے، اپنی چھاتیوں پر ٹینک شکن بارود باندھ کر نعرۂ تکبیر اور کلمۂ توحید کی بلند صداؤں کے ساتھ بھارتی جارح ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر انہیں برباد کر کے اس پیشقدمی کو روک دیا ۔اس جنگ میں دونوں اطراف کے7 ہزار فوجی وطن پر قربان ہوئے اور 22 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے، کل 550 کے قریب ٹینک برباد ہوئے جنگ کے اختتام پر مقابل افواج دشمن علاقوں پر قابض تھیں۔ امریکہ روس اور دیگر بین الاقوامی سفارتی کوشش سے 23 ستمبر کو پاک بھارت جنگ بندی ہوئی روس کے شہر تاشقند میں  معاہدہ طے پا گیا ۔ اگرچہ پاک بھارت افواج اپنے مفتوح علاقے خالی کرکے جنگ سے پہلے کی دفاعی پوزیشن پر واپس چلی گئیں مگر کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں ہی رہا ۔
آج پاکستان چین بھارت، تینوں اس خطے کی ایٹمی قوتیں ہیں، یہ ملک  متعدد جنگیں لڑ چکے ہیں ۔ بیشمار جنگوں کے علاوہ سرحدی خلاف ورزیوں میں’’ لہو گرم رکھنے کا ہے اِک‘‘ بہانہ کے مصداق، اپنی اپنی افواج کے جوان لاشے اٹھاتے رہتے ہیں پاکستان چائنہ نے دیر ہوئی کشمیر پر اپنے تنازعات حل کر کے بقائے باہمی کے تحت  تعاون اور ترقی کی راہ کو اپنا لیا ہے اور شیر شکر ہوکر باہمی ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں مگر بھارت مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور چائینہ کے ساتھ 75 سال میں بھی حل نہیں  کر پایا،جس کے انتہائی خطرناک  نتائج  ہو سکتے ہیں۔ جنگ 1965ء تنازعہ کشمیر پر پاک بھارت میں دوسری جنگ تھی جس کے نتیجے میں دونوں اطراف بھاری جانی نقصانات اٹھانے کے باوجود دونوں شیر وشکر نہ ہوسکے۔  اگلے چند سالوں میں مشرقی پاکستان میں بھارتی ریشہ دوانیوں مسلح بغاوت اور در اندازی سے مشرقی پاکستان کے سیاسی حالات ابتر ہوتے گئے جس پر قابو پانے کے لیے پاکستان کی مسلح افواج کو مداخلت بھی کرنا پڑی۔
 دسمبر 1970ء میں پاکستان قانون ساز اسمبلی کے انتخاب کے نتیجے میں عوامی لیگ کی 160 سیٹوں کی جیت کو مغربی پاکستان میں 80 سیٹیں حاصل کرنے والی سیاسی جماعت نے قبول نہ کر کے تقسیم پاکستان پر مہر تصدیق ثبت کردی اور مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک زور پکڑ گئی۔ مشرقی پاکستان کے لوگ مغربی پاکستان سے علیحدگی کا تہیہ کر چکے تھے اور افواج پاکستان کی جرأت ہمت اور قربانیوں کے باوجود ہمیں اس افسوسناک دن سے گزرنا پڑا جب شکست کے بعد مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سے علیحدہ  ملک بنا دیا گیا۔ 
جنگ 71ء کے اختتام پر پاک بھارت میں شملہ معاہدہ کے تحت تمام پاکستانی سول فوجی قیدیوں کو بلا مشروط رہائی مل گئی اور دونوں افواج نے ایک دوسرے کے مفتوحہ علاقوں کو خالی کردیا اس معاہدے کے تحت پاک بھارت اپنے باہمی تنازعات کسی بھی بین الاقوامی فورم پر نہیں لے جاسکتے اور تنازعات کا حل باہمی گفت شنید سے کرنے کے پابند ہیں اس معاہدے کے نتیجے میں پاک بھارت تنازعات پر بین الاقوامی فورمز کی تمام قراردادیں کالعدم قرار پائیں دونوں ممالک باوجود کوشش اپنے باہمی تنازعات کو آج تک بوجوہ حل کرنے میں ناکام ہیں ۔ علاقے میں عسکری برتری کے لیے ہتھیاروں کی دوڑ کا  بدستور جاری ہے جو خطے کے امن معیشت اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے چلی آرہی ہے۔ دونوں ممالک اپنے ہاںباجود بے انتہا  غربت کے آج ایٹمی اور مضبوط عسکری قوت رکھتے  ہیں ۔
 تنازعہ کشمیر کے نتیجے میں دونوں اقوام  کے مابین ایک لامتناہی چوتھی جنگ کا آغاز بھارتی افواج کے 1984 میں سیاچن گلیشئر پر  قبضے سے ہوا دونوں افواج دنیا کے بلند ترین عسکری محاز پر سالہا سال سے موسمی شدت کے باوجود آنکھوں میں آنکھیں ڈالے مختلف چوٹیوں کے حصول کے لیے معرکے لڑتے جان قربان کرتے جوانوں کے لاشے اٹھا رہے ہیں۔  دونوں ممالک نے گزشتہ 38 برس کی اس مسلسل جنگ میں کیا کھویا کیا پایا؟ ایک انتہائی قابل توجہ نکتہ ہے جو اس مسئلے کے جلد حل کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ 1984ء میں جنوبی ایشیا ایک اور جنگ کے دہانے پر کھڑا تھا جب پاک بھارت افواج مکمل گولہ بارود سمیت ایک دوسرے کے مدمقابل تھیں۔1999ء میں کارگل دراس سیکٹر کشمیر میںہماری فوج نے اہم اسٹریٹیجک بھارتی پہاڑی چوٹیوں پر قبضہ کر لیا ان چوٹیوں سے بھارتی عسکری سپلائی لائنز کو بآسانی زیر نگاہ رکھا جاسکتا تھا۔ ان چوٹیوں کو آزاد کروانے کے لیے پاک بھارت افواج کے بیچ مئی تا جولائی 1999ء گھمسان کا رن پڑا بالآخر امریکی مداخلت پر پاک افواج نے عسکری محاذ پر جیتی ہوئی یہ جنگ سیاسی اور سفارتی محاذ پر پس قدمی پر منتج ہوئی، بادل ناخواستہ یہ چوٹیاں بھارت کے حوالے کرنا پڑیں۔ اس جنگ میں نئی قائم کردہ ناردرن لائٹ انفینٹری نے کمال جرات اور بہادری کی انمٹ مثالیں قائم کیں۔جنگ میں جیت کے ثمرات سے سیاچن میں بھارتی قبضہ اگر ختم ہوجاتا تو اس تنازعہ کا حل دونوں اقوام کے لیے مستقلاًسود مند ہو جاتا۔ 
٭٭٭٭٭

1948 کی جنگ کے اختتام پر پاک بھارت کے 7000 جوان اپنے اپنے وطن پر جانثار اور قریب 17000 زخمی ہوئے

ای پیپر دی نیشن