ایف پی سی آئی کا معشیت مزید نقصان سے بچانے کیلئے حکومت کو 5نکاتی ایجنڈا پیش


لاہور (کامرس رپورٹر ) صدرایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو سیلاب کے بعد کی صورتحال میں کاروباری سر گر میوں کے تسلسل، روزگار کے مواقع کی فراہمی اور ٹیکسوں کے اہداف کی تکمیل کو ممکن بناتے ہو ئے معیشت کی مکمل بر بادی کو روکا جا سکے۔عرفان اقبال شیخ نے مزید کہا کہ ابتدائی تخمینے بتاتے ہیں کہ کم از کم انفراسٹرکچر کی تعمیر نو، تباہ شدہ گھروں کی مرمت، ایس ایم ایزکی پروٹیکشن، اقتصادی و تجارتی سرگرمیوں کو رواں دواں رکھنے اور سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی زندگیوں کو معمول پر لانے کیلئے اگلے 10 ماہ کے مختصر عرصے، یعنی رواں مالی سال 2022-23 کے باقی ماندہ عرصے کیلئے، 2,000 ارب روپے یا 9سے10 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ صدر ایف پی سی سی آئی نے عالمی برادری، مالیاتی ترقیاتی اداروں (DFIs)، دوست ممالک اور دنیا کی 20 بڑی معیشتوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ آگے آئیں اور سیلاب سے شدید متاثرہ پاکستان کے کل ایک تہائی حصے کی تعمیر نو میں مدد کیلئے اپنے مالی، تکنیکی اور انسانی وسائل بروئے کار لا ئیں۔انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستان کی 22کروڑ کی آبادی کا دنیا کے کل کاربن کے اخراج میں 1 فیصد سے بھی کم حصہ ہے لیکن گلوبل وارمنگ کے تباہ کن اثرات سے وہ دنیا میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ عرفان اقبال شیخ نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ اس سا ل مقامی طور پر پیدا ہونے والی خوردنی فصلوں کی پیداوار میں کم از کم  8.33 فیصد کی کمی واقع ہو گی اور یہ ملک میں پہلے سے موجود غذائی بحران کو مزید بڑھاوا دے گا اور اس کے نتیجے میں، ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ مزید بڑھے گا کیونکہ ہمارے پاس درآمدات کے ذریعے غذائی سپلائی کے خسارے کو پورا کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچے گا۔صدر ایف پی سی سی آئی نے معیشت کو مزید نقصان سے بچانے کیلئے ایک پانچ نکاتی ایجنڈا تجویز کیا ہے (i) حکومت کو چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ  بینک، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک، پیرس کلب اور دوست ممالک کے ساتھ بیرونی قرضوں کی ری اسٹر کچرنگ کے لیے مذاکرات کرے؛تاکہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے مداوے اور تعمیر نو کی سرگرمیوں کے لیے مالیاتی گنجائش پیدا کی جا سکے (ii) ہر ضلع، تحصیل اور گاؤں کی سطح پر نقصانات کا تفصیلی سروے فوری طور پر شروع کیا جائے اور بین الاقوامی اور دو طرفہ ڈونر کانفرنسیں منعقد کی جائیں اور بین الاقوامی برادری کو پیشہ ورانہ اور شفاف طریقے سے اپنا کیس پیش کرتے ہو ئے خاطر خواہ عطیات حاصل کرنے کو ممکن بنایا جائے (iv) اگلے سال کے مون سون کے سیزن سے پہلے بارش کے پانی کے دریاؤں اور سمندرتک پہنچنے کے قدرتی راستوں اور نہروں کو ان کی قدرتی شکل میں بحال کیا جائے (v) ملک کے اندر بے گھر ہونے والے افراد یعنی IDPs کی بحالی کے لیے ایک جامع منصوبہ 6 ماہ کی ڈیڈ لائن کے ساتھ بنایا جائے؛لیکن ساتھ ہی ساتھ عبوری عر صے کے لیے متاثرین کو خوراک اور طبی سہولیات کی باقاعدہ فراہمی کو یقینی بنایا جا ئے۔

ای پیپر دی نیشن