چھ ستمبر کو ہماری ملی تارےخ مےں خاص مقام حاصل ہے کےونکہ چھ ستمبر 1965کی شب ہمارے ازلی دشمن بھارت نے رات کی تارےکی مےں بلا اطلاع ہماری سر زمےن پر حملہ کےا لےکن آفرےن ہے ہماری بہادر مسلح افواح پہ ، ہمارے محافظ جاگ رہے تھے لاہور کے جم خانہ مےں چائے پےنے کے دشمن کے خواب چکناچور ہوگئے جب پوری قوم اپنی بہادر فوج کے شانہ بشانہ اٹھ کھڑی ہوئی .... یوم دفاع وطن ہم ایسے ماحول میں منا رہے ہیں جب وطن کا بڑا حصہ سیلاب اور طوفانی بارشوں سے متاثرہ ہے ۔ اطلاعات کے مطابق چودہ سو افراد کی زندگیوں کا چراغ بجھ چکا ہے زخمی ہونےوالوں کی بڑی تعداد عارضی طبی مراکز میں زیر علاج ہے، بے گھر ہونے والوں کی تعداد 30 لاکھ سے زائد بتائی جارہی ہے۔ سیلاب اور بے رحم پانی نے سندھ بلوچستان اور خیبرپختوانخوا میں دیہات کے دیہات صفہ ہستی سے مٹا دئیے ہیں ۔اقوام متحدہ نے نقصان کا اندازہ لگا لیا ہے بحالی کے پروگرامز کے لیے 35 ارب ڈالرز درکار ہیں۔ ہم عالمی برادری کے جذبہ خیر سگالی اور اخوت کو سلام پیش کرتے ہیں اس کے ساتھ پاکستانی قوم جس محبت اور جس عقیدت سے متاثرین سیلاب کی خدمت کررہی ہے وہ جذبہ ناقابل فراموش اور ناقابل بیان ہیں۔ اہل وطن کے جذبہ ایثار نے انصار مدینہ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ اسلام ہم سے یہی چاہتا کہ جب مسلمان مصیبت کا شکار ہوں تو ہم ایک دوسرے کی خدمت کے لیے میدان عمل میں نکلیں۔ مسلمان کی شان ایک دوسرے کے لیے عمارت کی طرح ہے جس طرح ایک اینٹ دوسرے کے ساتھ مل کر عمارات کو مضبوط بناتی ہے اگر ایک اینٹ نکال دی جائے تو عمارت نفص زدہ ہو جائے گی، مسلمان بھی ایک دوسرے کی عزت اور تکریم میں اضافہ باعث بنتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ملک میں ہی بہت زیادہ بارشیں ہوئیں لیکن سندھ میں ریکارڈ بارش ہوئی، بارش کے حالیہ اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں۔ سیلاب کی اس وقت جو صورتحال اور تیزی ہے وہ ہم نے پہلے کبھی نہیں .حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کی ہماری زندگی میں مثال نہیں ملتی ۔ سیلابی پانی 2010 میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے بھی زیادہ ہے، تواتر کے ساتھ بہت بڑی مقدار میں سیلاب کے باعث صورتحال خراب ہے۔طوفانی بارشوں اور سیلاب نے سندھ ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے مختلف علاقوں میں تباہی کی جو داستانیں رقم کیں ان کا اظہار لفظوں میں مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے ۔دوستوں اور احباب سے گزارش ہے کہ مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد میں آگے آئیں .ماہرین کا یہ کہنا تھا کہ حالیہ مون سون موسم جیسا سسٹم بھی ہم نے پہلے کبھی نہیں
دیکھا، ہم 8 ویں اسپیل سے گزر رہے ہیں جبکہ اس سسٹم کے تحت سندھ اور بلوچستان میں شدید بارشیں ہو رہی ہیں۔بارش سے 23 اضلاع آفت زدہ قرار دیے گئے ہیں، قومی ہنگامی صورتحال کا اعلان کردیا گیا ہے، سندھ کے 30 اضلاع مکمل طور پر ڈوبے ہوئے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف نے سیلاب متاثرین کے فوری امداد کےلئے 37اراب روپے سے زائد کی خطیر رقم سے ریلیف کیش پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے 25ہزار روپے فی خاندان مالی امداد شروع کردیا ہے اور اس سے تقریباً 15لاکھ متاثرہ خاندانوں کے 90لاکھ افراد مستفید ہوں گے۔ متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن کےلئے این ڈی ایم اے کو وزیراعظم کی ہدایت پر 5ارب روپے فراہم کردیئے گئے ۔ بلوچستان کے علاقہ جھل مگسی میں متاثرہ افراد میں 25ہزار روپے نقد امداد کی فراہمی شروع کردی گئی ہے، سیلاب سے جاں بحق افراد کے لواحقین کو 10لاکھ روپے معاوضہ فراہم کیا جارہا ہے، اب تک 493 افراد کے لواحقین میں فی کس 10لاکھ روپے امدادی چیک جاری کئے جاچکے ہیں، وفاقی حکومت کی طرف سے متاثرین کے گھروں کے سروے کا عمل بھی جاری ہے جس کی تکمیل پر متاثرہ گھروں کی تعمیر کےلئے فی گھر 5لاکھ روپے امدادی چیک دیئے جائیں گے۔این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ نقصان بلوچستان میں ہوا ھے جہاں 202 اموات ہوئیں، سندھ میں بھی لاڑکانہ، سکھر، خیرپور، دادو، نواب شاہ، اور نوشہرو فیروز میں بھی سیلابی صورت حال کا سامنا ھے، زیریں سندھ کے حیدر آباد اور میرپور خاص کے اضلاع بدین، ٹھٹھہ، سجوالہ، سانگھڑ اور عمر کوٹ میں بھی صورت حال مخدوش ھے، ان اضلاع میں بھی کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں کچے مکانات گر گئے، بدین ضلاع میں 72 یونین کونسلز میں سے 55 یونین کونسلز مکمل زیر آب آگئیں بدین ضلاع مکمل طور پر زیر آب ھے ۔ پہلے بارشوں میں لوگ دیہاتوں سے باہر نکل کر سڑک پر آکر بیٹھ جاتے تھے لیکن اس بار صورتحال یکسر مختلف ہوگئی ھے کیونکہ سڑکیں بھی زیر آب آگئی ہیں، بالائی اضلاع میں تاحال بارشیں جاری ہیںوزیراعظم شہبازشریف اور وزرائے اعلی پنجاب اور کے پی کے چوہدری پرویز الہیٰ اور محمود خان بھی متاثرہ علاقوں کا دورہ کررہے ہیں مگر وزرائے اعلی جس قسم کے سیاسی بیانات جاری کررہے ہیں انہیں سن کر اور پڑھ کر دکھ ہوتا ہے ہمیں مصیبت اور ناگہانی آفت کے ماحول میں بھی اپنی جماعت اور پارٹی پرچم عزیز رہتا ہے۔ آخر ہم کب سدھر یں گے! کاش ہم پاکستان اور قوم پر پڑنے والی افتاد میں ہی خود کو اتحادکی ڈوری میں باندھ لیتے، یہاں ہم جماعت اسلامی کی الخدمت فاو¿نڈیشن اورجماعت الدعوة کے حکام کو بھی مبارک باد پیش کرتے ہیں ۔ حکیم سرو سہا رن پوری فاو¿نڈیشن کے عہدیدار اور کارکن بھی قابل ستائش ہیں جو دکھ کی گھڑی میں سب کے ساتھ ہیں۔