6ستمبر 1965ءکا دن ان عظےم لمحات کی ےادگار ہے جب پوری قوم اپنی آزادی ،وطن عزےز کی سا لمےت اور دفاع کےلئے سےسہ پلائی ہوئی دےوار بن کر دشمن کی راہ مےں ڈٹ گئی تھی اور ثابت کر دےا تھا کہ فوجی ہو ےا شہری،بوڑھا ہو ےا جوان،عورت ہو ےا مرد،بلا کسی تفرےق کے وطن کی حفاظت کےلئے کسی قربانی سے درےغ نہےں کرے گا۔ذاتی حفاظت اےک جبلت ہے جو ازل سے انسان مےں موجود رہی ہے۔جوں جوں وقت گزرتا گےا ذاتی تحفظ کے احساسات خاندانوں،گروہوں،قوموں اور ملکوں کے تحفظ کے احساسات مےں تبدےل ہوتے گئے۔دفاعی جنگوں کےلئے فوجوں کی تشکےل ہوئی اور سائنس کی ترقی نے جنگی تدبےروں کےلئے جدےد جنگی ہتھےار تےار کر لئے۔جنگ مےں فتح و کامرانی کا سبب ےہ چار عناصر ہےں۔قےادت،سازوسامان،ماحول اور تائےد اےزدی۔انہی کے بل بوتے پر ساڑھے چودہ سو برس پےشتر مسلمانوں نے مجاہد اعظم سرور کائنات کی قےادت مےں دفاع مدےنہ کی جنگ مےں کامےابی حاصل کی تھی جسے جنگ خندق ےا جنگ الا حزاب کہتے ہےں۔مسلمانوں کی نئی ابھرتی ہوئی طاقت سے خائف ہو کر مشرکےن مکہ کے ساتھ مل کر بہت سی جماعتوں نے مدےنہ پر چڑھائی کی۔حملہ آوروں کی تعداد دس ہزار جبکہ دفاع کرنے والوں کی صرف تےن ہزارتھی مگر اےک خندق کو عبور کرنے کی جرا¾ت نہ کر سکے اور آخر کار بھاگ کھڑے ہوئے۔تائےد اےزدی کے بارے مےں ےوں ارشاد ہوا©©©©”اے اہل اےمان !اللہ کے انعام کو ےاد کرو کہ اُس وقت جب تم پر بہت سے لشکر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر اےک آندھی بھےجی اور اےسی فوج بھےجی جو تم کو نظر نہ آتی تھی۔لڑائی کے دوران اللہ تمہارے اعمال کو دےکھتا تھا۔(سورہ الاحزاب۔9) سرکار کل عالم نے دفاع اور جہاد کو بہت زےادہ اہمےت دی ہے۔صحےح مسلم مےں ہے کہ آپ نے فرماےا” جہاد کےلئے اےک دن کی تےاری اےک ماہ کے روزے رکھنے اور رات کو جاگ کر عبادت کرنے سے بہتر ہے۔“اےک اور مستند حدےث مےں ابن حنبل ؓ سے رواےت ہے کہ پیارے حضور نے فرماےا”اےک دن اپنے وطن کی سرحدوں کی حفاظت کرنا اےک ماہ کے روزوں اور عبادت سے بہتر ہے۔“ پاکستان امن و سلامتی کا علمبردار ہے اور دنےا کی تمام قوموں بالخصوص اپنے ہمساےہ ممالک سے اخوت ،بھائی چارے کی دوستانہ فضا مےں امن چاہتا ہے لےکن اپنے اصولوں کے خلاف جن کی اساس انصاف اور رواداری پر ہے اس نے نہ کبھی سمجھوتہ کےا ہے اور نہ آئندہ کبھی کر سکتا ہے۔بر صغےر کی تقسےم کے موقع پر پنڈت نہرو نے لارڈ ماﺅنٹ بےٹن کے ساتھ ساز باز کرکے پاکستان کےلئے متعےن شدہ سرحدوں پر ردوبدل کر دےا۔ہندﺅں اور مسلمانوں کی آبادی کے تناسب مےں زمےن و آسمان کا فرق ہونے کے باوجود کشمےر کو بھارت کی جھولی مےں ڈالنے کےلئے مہاراجہ کشمےر سے رےاست کا بنگالی الحاق بھارت سے کروالےا۔عرض ےہ کہ دھوکہ فرےب،جعل سازی اور ہر مذموم ہتھکنڈے استعمال کرکے پاکستان کو روز اول سے ہی کمزور اور ناپائےدار بنانے کے ہر کوشش کی گئی۔بھارت نے کبھی بھی پاکستان کے وجود کو دل سے تسلےم نہےں کےااور ہمےشہ اسے پامال کرنے کے منصوبے بناتا رہا۔انہی منصوبوں کی تکمےل کے طور پر 6ستمبر 1965ءکو پاکستان کی سرحدوں پر رات کی تارےکی مےں حملہ کر دےا۔بےن الا قوامی ضابطوں کو روند کر لاہور اور سےالکوٹ کی سرحدوں پر بزدلانہ حملہ کرتے وقت بھارت ےہ بھول گےا تھا کہ سوئے ہوئے شےر کو جگانے کا انجام کےا ہوتا ہے۔فےلڈ ماشل محمد اےوب خان نے گرجدار آواز مےں بھارتی حملے کو بزدلانہ اقدام قرار دےا اور قوم کو دفاعی جنگ کےلئے آمادہ کرتے ہوئے اپنے خطاب مےں کہا”ہم وطنو!بھارت کو معلوم نہےں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔پاکستان کے عوام جن کے دلوں مےں لا الہ الا للہ کی صدائےں گونج رہی ہےں اس وقت تک چےن سے نہےں بےٹھےںگے جب تک دشمنوں کی توپےں ہمےشہ ہمےشہ کےلئے خاموش نہےں ہو جاتےں“اس اعلان کے بعد ہر شخص بھارتی حملے کا منہ توڑ جواب دےنے کےلئے کمر بستہ ہو گےا۔پوری قوم وطن عزےز کے وقار اسکی بقاءو حفاظت اور ملت کی عزت و ناموس کی خاطر اےک سےسہ پلائی ہوئی دےوار کی مانند دشمن کے مقابلے پر ڈٹ گئی۔ولولہ انگےز قےادت نے ارض پاکستان کے محافظوں اور شہرےوں کے حوصلے بلند کر دےئے جس کے نتےجے مےں مجاہدےن کے ساتھ ساتھ شہرےوں نے بھی دشمن کو مار بھگانے مےں اہم کردار ادا کےا۔شاعروں نے اپنے کلام سے محافظوں کے حوصلے بلند کرنے مےں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔گلی گلی،کوچے کوچے اور ہواﺅں کی لہروں پر ےہ صدائےں گونج رہی تھےں”مےرےا ڈھول سپاہےا تےنوں رب دےاں رکھاں۔جدھر نظراں پاوےں وےری مار نساوےں“ہر کوئی من تن دھن ،ملکی سلامتی پر قربان کرنے کےلئے بےتاب دکھائی دےتا تھا۔ملک کے اندر عوام دفاعی جنگ لڑ رہے تھے اور سرحدوں پر فوجی جوان دشمن کو بری طرح شکست دے رہے تھے۔دشمن نے لاہور پر قبضہ کی خوشخبری سنائی تھی مگر اُسے ےہ معلوم نہ تھا کہ جہاں مےجر عزےز بھٹی شہےد جےسے مجاہد ہوں وہاں بھارتی بھگوڑے اپنے ناپاک عزائم مےں کامےاب کےسے ہو سکتے ہےں۔جوانوں نے بی آر بی نہر کے پل کو ڈائنامےٹ کرکے نہ صرف دشمن کی پےش قدمی کو روک دےا بلکہ اُسی کے علاقے مےں بہت پےچھے تک دھکےل دےا۔اسی موقع پر مےجر عزےز بھٹی نے شہادت پائی تھی۔سےالکوٹ کے محاذ پر مجاہدوں نے اپنے سےنوں پر بم باندھے اور ٹےنکوں کے نےچے لےٹ کر دشمن کے حملے کو پسپا کر دےا۔بھارت نے جب اپنی فضائےہ کو جنگ مےں جھونکا تو اُسے پاک شاہےنوں نے مفلوج کرکے رکھ دےا۔بری اور فضائی افواج کی طرح پاک بحرےہ نے بھی قوم کو سربلند رکھنے مےں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔انہوں نے بھارتی بحرےہ کو سر اٹھاتے ہی کچل کر رکھ دےا۔ستمبر 1965ءکی پاک بھارت جنگ مےں دنےا نے دےکھ لےا کہ ملک و ملت کی بقاءاور حفاظت پر قربان ہونے کے جذبہءشوق شہادت سے سرشار اور موت کی آنکھوں مےں آنکھےں ڈالنے والی قوم ہی سازوسامان اور افرادی قوت کی کمی کے باوجود تااےزدی پر اےمان رکھ کر اپنے بڑے سے بڑے دشمنوں پر بھی غالب رہتی ہے۔جب بھارت کو ہر محاذ پر منہ کی کھانا پڑی تو آخر کار سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹاےا۔53 برس گزرنے کے باوجود 6ستمبر1965ءکی ےادےں تازہ پھولوں کی طرح مہکتی ہےں۔ےہ ےادےں اسلئے شاداب ہےں کہ اس مےں شہےدوں کے لہو کی مہکارےں شامل ہےں۔کےونکہ شہےد تو مرتے نہےں ۔انہےںمردہ نہےں کہنا چاہئے۔وہ تو زندہ اور خوش و خرم ہےں۔6ستمبر 1965ءکا دن آج بھی افواج پاکستان کے لئے بہت اہمےت کا حامل ہے۔ےہ دن ملک کے جےالوں کو دفاع پاکستان کی بھاری ذمہ داری کی ےاد دلاتا ہے تاکہ وہ پہلے کی طرح جذبہ شہادت سے لےس ہوکر ہر وقت تےار رہےں۔ےہ دن ہمےں ترقی اور خوشحالی کی خوشخبری بھی دےتا ہے۔ملکی دفاع اےک مقدس فرےضہ ہے جسکی ادائےگی کےلئے قوم کو اپنے تمام اخلاقی،معاشرتی،افرادی اور مادی وسائل کو بروئے کار لاکر سرخرو ہونا پڑتا ہے۔