اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سرکاری ہیلی کاپٹر پر پی ٹی آئی آزاد کشمیر کی وزارت عظمی کے امیدواروں کو اسلام آباد لانے سے متعلق کیس میں انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کی اپیل خارج کردی اور حکم دیا ہے کہ حکومت شہری کو سرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال سے متعلق اخراجات کی تفصیل فراہم کرے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ شہری جاننا چاہتا ہے کہ وزیراعظم کا ہیلی کاپٹر کہاں کہاں استعمال ہوا تھا، ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی نے کہاکہ یہ معلومات ڈیفنس سے متعلقہ ہے یہ نہیں دے سکتے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جو معلومات مانگی جا رہی ہیں یہ ڈیفنس سے متعلقہ نہیں ہے، پبلک فنڈ سے متعلق معلومات ایک شہری مانگ رہا ہے اس کا حق ہے، قانون میں ہے کہ شہری پبلک فنڈ اخراجات سے متعلق معلومات مانگ سکتا ہے، اگر ڈیفنس کا ہیلی کاپٹر ہے اگر کسی اور مقصد کے لیے استعمال ہوا ہے تو معلومات جاننا شہری کا حق ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر میں ہیلی کاپٹر استعمال کر رہا ہوں تو وہ کیسے ڈیفنس سے متعلقہ ہو سکتا ہے؟، شہری کو جاننے کا حق ہے کہ اس کے پیسے کہاں لگ رہے ہیں؟، شہری ڈیفنس فورسز سے متعلق معلومات نہیں مانگ رہا بلکہ وزیر اعظم سیکرٹریٹ سے متعلق مانگی ہے، شہری نے جو معلومات مانگی ہیں اس کا حق ہے اور یہ احتساب کا بہت موثر ذریعہ ہے، ہیلی کاپٹر جس کا بھی ہو؟ اگر وہ کسی کی فیملی ممبر کے لیے بھیج رہے ہیں تو یہ اس کا ناجائز استعمال ہے، اگر ڈیفنس منسٹری کا ہیلی کاپٹر اگر دفاع کے سوا کسی اور مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے تو یہ اختیار کا غلط استعمال ہے، آرٹیکل 19 اے میں شہری کا حق ہے کہ اس کے پیسے کہاں لگ رہے ہیں، اگر ہیلی کاپٹر مس یوز ہوا ہے تو ذمہ داران عوام کو جواب دہ ہیں، یہ پبلک آفس کا موثر احتساب ہے، حکومت ایسی پٹیشنز عدالت کے سامنے نا لائے آپ عوام کو جواب دہ ہیں۔ عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ درخواست نمٹادی۔ یاد رہے کہ حکومت نے سرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال اور اخراجات کی تفصیل بتانے سے انکار کیا تھا، پی ٹی آئی کے وزارت عظمی کے امیدواروں کو ہیلی کاپٹر پر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے انٹرویو کے لیے لایا گیا تھا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ