چھ ستمبر


وفا جو خون دے کر ہو وہ پیماں چھ ستمبر ہے
شجاعت نفس مضموں ہو تو عنواں چھ ستمبر ہے
جواں جذبہ رہے دل میں ہمیشہ چھ ستمبر کا 
ہماری پاک دھرتی کی رگ جاں چھ ستمبر ہے
بہت سے دن جہاں میں نقش اپنا چھوڑ جاتے ہیں
وفا کے باب میں لیکن نمایاں چھ ستمبر ہے
اندھیروں کے علمبردار دشمن کو خبر کردو
شب تاریک میں خورشیدِ تاباں چھ ستمبر ہے
نہ سلجھی ہے نہ سلجھے گی الجھتی اور جائے گی
                                      عدو کے ہاتھ میں زلف پریشان چھ ستمبر ہے
قیامت تک نہ بھولے گی ہزیمت جواٹھائی تھی
مخالف کے لئے عبرت کا ساماں چھ ستمبر ہے
اسی سے روشنی لیتے ہیں انجم آسمانوں پہ
اجالوں کا پیمبر حرف رخشاں چھ ستمبر ہے

ای پیپر دی نیشن