ایک صاحب ہیں کہ نام میں ’’موتی والا‘‘ آتا ہے یعنی موتیوں والی سرکار ہی سمجھئے۔ کسی اور کے منہ میں اپنا فقرہ ڈالنے کی کاریگری کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ملک کا کوئی بھی سیاستدان ملک سے مخلص نہیں۔
کتنا سُچّا اور میٹھا بول فرمایا، ایک بار پھر سے فرما دیں تو مٹھاس اور بھی بڑھ جائے۔ بالکل بجا کہ کوئی سیاستدان ملک سے مخلص نہیں تو پھر ملک سے مخلص کون کون ہے؟۔ ایک تو یہی موتیوں والی سرکار اور دوسرے تمام وہ سرکاریں جو موتیوں والی ہیں۔ جن کے کارخانے اور ملیں ہیں، بڑے بڑے کاروباری ادارے اور پلازوں کی قطاریں ہیں ۔ جن کے پاس انگریز کے دور سے جاگیروں کے پروانے اور گدّی نشینی کے ٹھکانے ہیں، وہ افسر ہیں جن کے سرکاری اور غیر سرکاری گھر سو سو کنال کے ہیں، جن کے پورچوں اور گھر کی پارکنگ لاٹوں میں گاڑیوں کے فلیٹ کھڑے رہتے ہیں اور ہر گاڑی کروڑوں کی ہے۔ جو ہر مہینے لاکھوں روپے کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں اور جن کے بچے سرکاری خرچے پر ولایت جا کر پڑھتے ہیں اور جن کی ایک سے زیادہ نجی رہائش گائوں کی تعمیر و مرمت، تزئین و آرائش کیلئے سرکار خصوصی فنڈ مقرر کرتی ہے، جن کے مالیوں، باورچیوں ، چوکیداروں، مٹھی چاپی کرنے والوں کی فوج ظفر موج کی تنخواہیں بھی اس سرکاری خزانے سے آتی ہیں جو آئی ایم ایف سے بھیک لے کر بھرا جاتا ہے۔ جن میں سے کوئی گرفتار (کسی بھی غلط فہمی یا شکررنجی سے) ہو جائے تو سارا لضاخیاتی نظام حرکت اور طیش میں آ جاتا ہے اور جب تک اسے چھڑا نہیں لیتا، چین سے نہیں بیٹھتا۔
بس یہی موتیوں والی سرکاریں ملک سے مخلص ہیں ، باقی سب غیر مخلص ۔انہی مخلصین کے خلوص کے اعتراف میں غریبوں پر سو طرح کے ٹیکس لگا کر نذرانے وصول کئے جاتے ہیں تاکہ موتیوں والی سرکاروں کے موتی ہمیشہ چمکتے دمکتے رہیں۔ پاک سرزمین کی ساری شاد آبادی انہی موتیوں کی آب کے دم پر ہی تو ہے۔
بھاگ لگے رہیں موتیاں والو، 20 کروڑ شودر تمہاری سیوا ہی کیلئے تو بھگوان نے پیدا کئے ہیں۔
مسلم لیگی رہنما خواجہ آصف نے کہا ہے کہ شہباز شریف اور اسحاق ڈار لندن جا کر بیٹھ گئے ہیں۔ انہیں واپس آ جانا چاہیے۔
لگتا ہے نواز شریف کی طرح ان دونوں کا دل بھی لندن میں لگ گیا ہے اور جہاں دل لگ جائے، وہاں سے واپس آنے کا دل کہاں کرتا ہے۔
ویسے بھی شہباز و ڈار کے ذمے باجوہ صاحب نے ایک ڈیوٹی لگائی تھی کہ میاں، تم نے عمران خان کا مشن پورا کرنا ہے۔ مطلب جو کمی رہ گئی تھی، اسے دور کرنا ہے۔ دونوں نے ذمے داری نبھا دی۔ اب عمر ایسی ہے کہ مزید ذمہ داری نبھانے کی طاقت نہیں ۔ بوڑھے کندھے اب آرام چاہتے ہیں۔ خواجہ صاحب ان سے واپسی کا تقاضا نہ کریں۔ بلکہ اچھی بات تو یہ ہے کہ ’’آیا یاران رفتہ آیا آیا‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے خود بھی لندن سدھار جائیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے بزرگ لندن ہی میں جچتے ہیں، یہاں نہیں!
________________
اس دوران میاں نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے بھی ایک اور مصدقہ خبر آ رہی ہے کہ آپ /15 اکتوبر کو واپس تشریف لا رہے ہیں۔ اور اس روز آپ لاہور ائیر پورٹ اتریں گے جہاں ان کا زبردست استقبال ہو گا۔
اس سے قبل ان کی واپسی کی کوئی ڈیڑھ درجن تاریخیں واپس ہو چکی ہیں۔ یہ تازہ تاریخ کب واپس ہو گی۔؟ غیر ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ /10 اکتوبر کے آس پاس یہ تاریخ واپسی لے لی جائے گی اور /15 اکتوبر کو اعلان کچھ اس طرح ہو گا کہ نواز شریف بہت جلد وطن آ رہے ہیں۔ غیر ذمہ دار ذرائع کے مطابق واپسی کی اگلی تاریخ نومبر کی ابتداء میں دی جائے گی۔ بعض دل جلے ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف وطن واپس آ کر کیا کریں گے۔ سب کچھ تو شہباز شریف کر گئے، ان کے کرنے کو اب بچا ہی کیا ہے۔
________________
بھارتی حکومت نے ملک کا نام ’’انڈیا‘‘ سے بدل کر ’’جمہوریہ بھارت‘‘ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بی جے پی کے بعض رہنمائوں اور تھنک ’’ٹینکروں‘‘ کے خیال میں انڈیا مسلمانوں کا دیا گیا نام ہے۔
مسلمانوں نے اس سرزمین کو دراصل ’’ہند‘‘ اور ’’ہندوستان‘‘ کا نام د یا تھا۔ انگریزوں نے ہند کو انڈیا بنا دیا۔ ’’ہندوستان پر انگریزی قبضے سے بہت پہلے کی بات ہے۔ بہرحال، بی جے پی سرکار اب اس ملک کے بہت ہی پرانے نام کی طرف پلٹنا چاہتی ہے تو پلٹ جائے اس کے پاس ووٹ کی طاقت ہے۔ بھارت بہت ہی پرانا نام ہے۔ قدیم کتاب ’’وشنو پراں‘‘ کو پڑھو تو پتہ چلتا ہے کہ اس کتاب سے بھی کئی ہزار سال پہلے کا نام ہے۔ صرف بھارت نہیں، بھارت ورش ۔ ایک اور نام بھی تھا، آشرورش۔
وشنو پرانا VISHNY PURANA چار سو سال قبل ازمیح کی لکھی گئی منظوم کتاب ہے۔
بھارت سرکار مختلف شہروں اور مقامات کے ’’مسلمان‘‘ ناموں سے بتدریج نجات حاصل کرتی آ رہی ہے۔ الہ آباد جیسے مذہبی رواداری اور علمی و تہذیبی ورثے کے حامل شاندار شہر کا نام بدل کر پرباگ رکھ دیا۔ یوپی کے درجنوں شہروں کے نام بدل ڈالے۔ اب ایک اور بڑے اور تاریخی شہر حیدر آباد کا نام بھی بدل کر کرخت تلفظ والا نام رکھا جا رہا ہے۔ پورا بھارت جب ملّے (ملّا) کاٹے جائیں گے سب رام نام چلّائیں گے اور ہندی ہندو ہندوستان ۔ ملّا بھاگو پاکستان کے نعروں سے گونج رہا ہے۔
خیر، اب سوال یہ ہے کہ ہندوستان کا نام بھارت رکھ دیا جائے گا تو ہندی زبان کا نیا نام کیا ہو گا؟۔ شاید بھارتی اور اسی طرح ہندو کیا کہلائیں گے؟ بظاہر بھارتیہ ان کا نیا نام ہو گا اور جو بھارت واسی ہندو نہیں ہیں، یعنی مسلمان،ہسپانی، سکھ، جین ، بودھ وغیرہ تو ’’بھارتیہ‘‘ کا ٹائٹل تو شاید انہیں نہیں ملے گا، انہیں پھر کیا کہا جائیگا؟ یہ کہ نکلو بھاگو پاکستان ؟