ہم ایٹمی طاقت ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم بدانتظامی میں بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ ہم ایٹمی طاقت تو بن گئے لیکن معاشی طاقت بننے سے بہت دور ہیں۔ یہ آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ ہنوز دلی دور است۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایٹمی طاقت بننے کا مشکل ترین ہدف حاصل کرنے والا ملک اور اس کے لیے قربانیاں دینے والی قوم معاشی طاقت کیوں نہ بن سکی۔ معاشی طاقت بننا تو دور کی بات ہے ان دنوں ہمیں معیشت کو سنبھالنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ کیسے آگے بڑھیں سیاسی قیادت کو ایک دوسرے پر الزام دھرنے سے ہی فرصت نہیں ہے۔ بہرحال اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو سب سے پہلے اپنی امپورٹ ایکسپورٹ پالیسی کو واضح کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنے طرز زندگی کو بدلنے کی طرف بڑھنا ہو گا۔ جن ملکوں نے ترقی کی ہے انہوں نے قربانیاں دی ہیں۔ پاکستانی قوم بھی قربانی تو دیتی ہے لیکن بدقسمتی سے اکثر و بیشتر ہماری قربانیاں رائیگاں جاتی ہیں۔ قربانی عام آدمی دیتا ہے اور اس سے فائدہ طاقتور طبقہ اٹھاتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ قربانیوں کا سلسلہ اعلی سطح سے شروع ہو۔ ان دنوں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے کفایت شعاری اور امپورٹڈ آئٹمز سے ہاتھ کھینچیں، اپنی چیزوں پر زندگی گذارنے کے سفر کا آغاز کریں۔ مثال کے طور پر ان دنوں چینی کا بحران ہے۔ حکومتی سطح پر چینی کے کم تر استعمال کو یقینی بنایا جائے۔ بجائے اس کے کہ ہم ساری چینی خود استعمال کریں ہمیں چینی کا بڑا حصہ ایکسپورٹ کر دینا چاہیے۔ حکومتی سطح پر یہ مہم شروع کی جائے کہ "چینی کا استعمال ترک کریں" اور حکومت اس سلسلے میں پہل کرے۔ وفاقی کابینہ اور سرکاری افسران کفایت شعاری کی اس مہم کا آغاز اور سختی سے اس پر عمل کریں۔ صرف ایک چینی کا استعمال کم کر کے ہم اپنی معیشت کو مضبوط بنانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح چائے کے غیر ضروری استعمال کی عادت سے بھی چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا اور یہ کام بھی حکومتی و سرکاری سطح سے شروع ہو۔ سرکاری میٹنگز میں سادہ پانی یا گرم پانی کا استعمال شروع کیا جائے، غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کیا جائے۔ اگر کرنا چاہیں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ افسران دفتر میں ہوں یا نہ ہوں انکے کمروں میں لائٹس آن رہتی ہیں، ایئر کنڈیشنز چلتے رہتے ہیں، اسی طرح سرکاری گاڑیوں کا بے رحمی سے استعمال ہوتا ہے، حکومت پہلے خود خزانے پر بوجھ کم کرنے کے اقدامات اٹھائے پھر عوام سے رجوع کرے۔ ہم کھانے پینے کی چیزیں امپورٹ کرتے ہیں۔ ایسی تمام غیر ضروری اشیا کی امپورٹ پر پابندی عائد کی جائے۔ یہ کام کون کرے گا۔ ہمیں اپنا سرمایہ بچانا اور معیشت کو مضبوط کرنا ہے۔ یہ کام حکومتوں کا ہے اگر حکومتیں کچھ کرنا چاہیں تو یہ مشکل نہیں لیکن ہماری حکومتیں نہ تو ٹیکس چوری روکنے کی اہلیت رکھتی ہیں، نہ بجلی چوری روک سکتی ہیں اور نہ ہی سمگلنگ روکنا ان کے بس میں ہے۔ ان حالات میں بہتری کیسے ممکن ہے۔ بجلی مہنگی کر دیتے ہیں لیکن چوری نہیں روکتے۔ قرضے لیتے ہوئے نہیں سوچتے کہ اس کا وزن کس نے اٹھانا ہے۔
دوسری طرف خبریں یہ بھی ہیں افواج پاکستان کے سربراہ ملک کے بڑے شہر کی اہم کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ آرمی چیف ملک میں بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر دوست ممالک سے پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ملک میں کاروبار کے فروغ کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ بدعنوانی کے خاتمے، سمگلنگ روکنے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا۔
ان حالات میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ سیاسی حکومتیں ملک کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس وقت نگراں حکومت ہے لیکن بالخصوص گذشتہ پندرہ برس میں دیکھا جائے تو ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں ملک کے بڑے اور بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ نہ ہماری امپورٹ کم ہوئی نہ ہم ایکسپورٹ بڑھا سکے، نہ ہم ٹیکس وصولیوں کا نظام بہتر کر سکے ہیں۔ نہ ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق بہتر فیصلے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اب ان حالات میں بھی اگر افواج پاکستان کے سربراہ کو میدان میں آنا پڑے، اندرونی طور پر چیزوں کو ٹھیک کرنے، کاروباری طبقے کو اعتماد دینے، دوست ممالک سے سرمایہ کاری کا معاملہ ہو ہر جگہ اگر آرمی چیف نے کوششیں کرنی ہے تو پھر سیاسی قیادت کی کیا ذمہ داری ہے۔ اگر پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومتوں نے بہتر فیصلے کیے ہوتے تو ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔ سیاست دانوں نے ماسوائے الزام تراشیوں کے سوا کچھ کیا ہوتا تو آج چینی دو سو روپے فی کلو اور آٹا نایاب نہ ہوتا۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ جمہوریت ناکام ہوئی ہے ۔ عوام جمہوریت کی قیمت ادا کر رہے ہیں ۔
نگران وزیر داخلہ سندھ بریگیڈئیر
ریٹائرڈحارث نوازچوروں کو پکڑنے میں ناکام ہوتے ہیں یا کامیاب اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن انہوں نے کراچی میں موبائل فون چوری سے بچانے کا بہت ہی اچھا نسخہ اور موبائل فون کو ملزمان سے بچانے کا آسان طریقہ بتایا ہے۔انہوں نے کراچی کے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ "موبائل کو ایسی جگہ رکھیں جہاں سے چوری نہ ہو ، دوسرا یہ کہ موبائل فون اندر والی جیب میں رکھیں۔ شہری خود بھی ہماری اور پولیس کی مددکریں، موبائل رکھیں ہی ایسی جگہ جہاں سے چوری نہ ہو سکے۔" وزیر داخلہ کو شاید علم نہیں کہ جیسے ہی موبائل فون سننے کے لیے جیب سے نکالا جائے گا شکاری شکار کر لیں۔ یہ طریقے تو لوگوں کو بھی آتے ہوں گے لیکن کراچی کی سڑکوں پر لٹنے والوں سے زیادہ حفاظتی تدابیر شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ ہر کسی کی اندر کی جیب نہیں ہوتی کیا اس سے بہتر مشورہ یہ نہیں کہ موبائل فون کا استعمال ہی ترک کر دیں نہ موبائل فون ہو گا نہ چوری ہو گا۔ حکومت کا یہ کام نہیں کہ وہ لٹنے والوں کو مشورے دیتی رہے حکومت کی ذمہ داری امن و امان کا قیام اور ایسے حالات پیدا کرنے ہیں کہ شہری بلا خوف و خطر گھوم پھر سکیں۔
آخر میں پروین شاکر کا کلام
اپنی رسوائی تِرے نام کا چرچا دیکْھوں
اِک ذرا شعر کہوں اور مَیں کیا کیا دیکْھوں
نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکْھوں
آنکھ کْھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکْھوں
شام بھی ہو گئی دْھندلا گئیں آنکھیں بھی مِری
بْھولنے والے مَیں کب تک تِرا رستہ دیکْھوں
ایک اِک کرکے مْجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج مَیں خود کو تِری یاد میں تنہا دیکْھوں
کاش صندل سے مِری مانگ اْجالے آ کر
اِتنے غیروں میں وہی ہاتھ جو اپنا دیکْھوں
تو مِرا کْچھ نہیں لگتا ہے مگر جانِ حیات
جانے کیوں تیرے لیے دِل کو دھڑکنا دیکْھوں
بند کرکے مِری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بْوجھے جانے کا مَیں ہر روز تماشا دیکْھوں
سب ضدیں اْس کی مَیں پْوری کرْوں ہر بات سْنوں
ایک بچے کی طرح سے اْسے ہنستا دیکْھوں
مْجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبْو کی طرح
انگ انگ اپنا اِسی رْت میں مہکتا دیکْھوں
پْھول کی طرح مِرے جِسم کا ہر لب کْھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی اْن ہونٹوں کا سایا دیکْھوں
مَیں نے جِس لمحے کو پْوجا ہے اْسے بس اِک بار
خواب بن کر تِری آنکھوں میں اْترتا دیکْھوں
تو مِری طرح سے یکتا ہے مگر میرے حبیب
جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تْجھ سا دیکْھوں
ٹْوٹ جائیں کہ پِگھل جائیں مِرے کچے گھڑے
تْجھ کو مَیں دیکْھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکْھوں