چھ ستمبر 1965ء کا دن یہی وقت ہوگا رات 12اور دو بجے کے درمیان جب طاقت کے زعم میں مبتلا ہندواتوا کے پجاریوں نے گھٹا گپ اندھیرے میں اپنے ناپاک قدم پاک سرزمین میں رکھنے کی جسارت کی۔ دشمن اپنے تمام تر توپ خانے، اس دور کے لحاظ سے جدید ٹینک، تمام فضائی جدید بحریہ کی طاقت کے ساتھ زمین فضا اور سمندر کے راستے بیک وقت حملہ اور تھا جس کے مقابلے میں بوسیدہ توپ خانے، اٹھارویں صدی کی توپیں۔ دشمن کے پاس ن تھری ناٹ تھری رائفل۔100 کے مقابلے میں 20 ٹینک جب کہ ان گنت ٹینکوں سے دشمن حملہ آور تھا۔ سخوئی جہاز مگ جہاز جدید ہنٹر جہازوں کے مقابلے میں چند جہاز 107 اور سیبریز تھے۔ دشمن کے پاس ہر دور کی طرح جدید اسلحہ دفاعی ساز و سامان، دوسری طاقتوں کی حمایت اور ہر سہولت موجود تھی۔ جبکہ مقابلے میں سجدوں سے لبریز پیشانیاں ایمان کی حرارت لیے جسم توکل اللہ اور صرف دفاعی اسلحہ تھا جو دشمن کی طاقتور یلغار کو اس وقت کے تجزیہ نگاروں کے مطابق صرف چند گھنٹوں روک سکتا تھا۔ پھر دنیا نے دیکھا اور یاد رکھا کہ حیدر کردار کے جانشینوں، خالد بن ولید کے شیروں، محمد بن قاسم، غزنوی، ابدالی اور ٹیپو کے سپوتوں نے ہر لحاظ سے برتر دشمن کو مشرق کے ہر محاذ پر پسپا کرنا شروع کیا۔
لا الہ الا اللہ کے نام پر حاصل کیے گئے ملک کی حفاظت کی خاطر قربانیوں کی لازوال داستان رقم کرتے ہوئے جب ٹینکوں کے خلاف ہتھیار ختم ہو گئے تو بم جسموں سے باندھ کر ٹینکوں تلے لیٹ کر چونڈا کے مقام کو دشمن کے ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔ رانی اور شیرنی نام کی دو بڑی پاکستانی توپوں کی گھن گرج سے دشمن کا توپخانہ دہل گیا۔
دشمن اپنا توپ خانہ ٹینک اسلحہ اور یہاں تک کہ دشمن کے جنرل بھی اپنی جیپیں محاذ جنگ پر چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ زمینی فوج کو لازوال فتح نصیب ہوئی جو رہتی دنیا تک مجاہدین کی سر بکف قربانیوں کی گواہ رہے گی۔ سات ستمبر کے دن دشمن نے جب دیکھا کہ زمین ان پر تنگ کر دی گئی تو وہ اپنی پوری فضائی طاقت کے ساتھ آسمانوں کی جانب سے پاک فضاؤں میں داخل ہوا جہاں اقبال کے حقیقی شاہین ہنڑ مگ اور سخوئی طیاروں کے منتظر تھے۔ اللہ اللہ فضا نے اس سے پہلے یہ منظر نہ دیکھا ہوگا کہ ایک پوری سکوارڈن کے مقابلے میں صرف دو تین جہاز۔ اور پھر شاہینوں نے سات ستمبر کو ڈاگ فائیٹ فضا میں جنگی طیاروں کی آمنے سامنے جنگ میں وہ تاریخی ریکارڈ بنائے کہ آج بھی دنیا ایم ایم عالم اور ان کے ساتھیوں کی مثال پیش کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔
اس حوالے سے ایک برتری دشمن پر پاکستان کو حاصل تھی کہ پاکستان کے پاس اس وقت جدید ترین طیارے ایف 107 تھے جو سپر سیٹنگ سپیڈ سے اڑتے ہوئے جاتے اور دشمن کے ہوائی اڈوں کو تباہ و برباد کر کے آ جاتے ہیں یہاں تک کہ ان طیاروں نے بھارتی جہاز بمع پائلٹ گرفتار کر کے اپنی زمین پر اتارے۔ شاہین آج تک اپنا لوہا اللہ کی مدد اور ایمان کامل سے منوائے ہوئے ہیں۔ آٹھ ستمبر کے دن دشمن کا پلان تھا سمندری راستے سے حملہ آور ہو کر پاکستان کے سمندری علاقوں پر قبضہ کرنے کا تاکہ زمینی اور فضائی جنگ کی معرکہ آرائی ہو لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ طارق بن زیاد اور ٹیپو سلطان کے جان نشین سمندر پر کڑا پہرا دے رہے ہیں۔ یہاں دشمن کی سازش پہلے ہی معلوم ہو گئی۔ آٹھ ستمبر کے دن پاکستان نیوی کے بحری جنگی جہازوں نے بھارت کے ساحل پر حملہ کیا اور دورے کا اپریشن سومنات کے دوران بھارتی ریڈار اسٹیشن کو تباہ کیا۔ پاکستان کی آبدوز غازی کا خوف بھارتی نیوی کے جہازوں پر چھایا رہا اور غازی نے سمندر پر اپنی بالاد دستی قائم کیے رکھی۔ 17 دن کی اس مختصر جنگ نے بھارتیوں کی گولڈن سٹار ڈاکٹرین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ دنیا کی تاریخ میں موجودہ دنیا نے 1400 سال پہلے کے عظیم مسلمان جرنیلوں کی جھلک دیکھی اور دنیا نے تسلیم کیا کہ ہاں عمر بن خطاب علی حیدر کرار، سیف اللہ خالد بن ولید، صلاح الدین ایوبی، سلطان ارتغرل، سلطان محمود غزنوی، سلطان عبدالعلی کی روحانی اولادیں اس دنیا میں ابھی موجود ہیں جو اپنے آبا و اجداد کی رسم کو نبھانا جانتی ہیں۔