1965 میں پاک فوج نے" آپریشن جبرالٹر " کے نام سے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کی پلاننگ کی- وزارت خارجہ نے اپنی سفارت کاری کی بنائ پر وزارت دفاع کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر کشمیر کا متنازعہ مسئلہ حل کرانے کے لیے پاک فوج نے سیز فائر لائین کراس کی تو بھارت انٹرنیشنل بارڈر کو کراس کرنے کی کوشش نہیں کرے گا اور جنگ کشمیر تک محدود رہے گی- جب پاک فوج نے سیز فائر لائین (ایل او سی ) کو عبور کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے علاقوں میں پیش قدمی کی تو بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور بھارت کی وزارت دفاع اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ اگر پاک فوج کی پیش قدمی کو نہ روکا گیا تو وہ دہلی کے لال قلعہ تک پہنچ سکتی ہیں- بھارت نے پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر زبردست پروپیگنڈا کیا کہ پاکستان نے بھارت کے خلاف جارحیت کی ہے- اس اہم اور حساس موڑ پر امریکہ نے تحریری معاہدوں کے مطابق پاکستان کی مدد کرنے کی بجائے بھارت کی مدد کی-
بھارت نے امریکہ روس اور مغربی ملکوں کی آشیر باد سے 6 ستمبر 1965 کو پاکستان کے دل لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کردیا - بھارتی افواج بی آر بی نہر تک پہنچ گئیں ان کا منصوبہ تھا کہ شام تک وہ لاہور جمخانہ کلب پہنچ جائیں گی- اس نازک موقع پر میجر عزیز بھٹی شہید اور ان کی کمپنی نے رانی توپ استعمال کرکے بھارتی فوج کی پیشقدمی کو روکا- میجر عزیز بھٹی شہید ( نشان حیدر) اپنے آخری سانس تک مورچے میں ڈٹے رہے-
فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان آئین شکن تھا البتہ بہادر جرنیل تھا - اس نے پاکستانی قوم کو متحد کرنے اور پاک فوج میں جزبہ جہاد پیدا کرنے کے لیے اپنے ولولہ انگیز نشری خطاب میں کہا " پاکستان کے دس کروڑ عوام جن کے دل لا الہ الااللہ محمد الرسول اللہ کی آواز کے ساتھ دھڑک رہے ہیں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک بھارتی توپیں ہمیشہ کے لیے خاموش نہ کر دی جائیں -بھارتی حکمرانوں کو علم نہیں کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے اور اس کا واسطہ کس قوم سے آن پڑا ہے" بھارت کے اچانک حملے نے پوری قوم کو متحد کر دیا-پاکستان کے بزرگ نوجوان اور خواتین اپنی بہادر فوج کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہوگئے- شاعروں نے قومی نغمے تحریر کیے-گلو کاروں نے انہیں موسیقی اور آواز میں ڈھال کر قوم اور فوج میں جوش اور ولولہ پیدا کر دیا -
1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستانی قوم انمول اور روح پرور جزبے سے سرشار تھی- ملکہ ترنم نور جہاں اور دوسرے گلوکاروں نے یہ نغمے گا کر عوام اور فوج کے دلوں میں بے مثال ولولہ پیدا کر دیا- اے وطن کے سجیلے جوانوں میرے نغمے تمہارے لیے ہیں- ساتھیو مجاہدو جاگ اٹھا ہے سارا وطن- توحید کا پرچم لہرایا اب وقت شہادت ہے آیا اللہ اکبر- جنگ کھیڈ نہیں ہوندی زنانیاں دی -
7 ستمبر 1965 کو پاک فضائیہ کے سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے بھارتی فضائیہ کے پانچ جنگی طیارے مار گرائے اور عالمی ریکارڈ قائم کر دیا جس کے بعد بھارتی فضائیہ کی کمر ٹوٹ گئی-پاک فوج کے جوانوں نے چونڈہ سیالکوٹ میں ٹینکوں کی تاریخ ساز جنگ لڑی اور بھارتی فوج کو پسپا کر دیا- پاک فوج کے دلیر جوان وطن کے دفاع کے لیے اپنے جسموں پر بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے-
ایک بھارتی جرنیل نے اپنی کتاب میں تسلیم کیا کہ جب وہ واہگہ بارڈر کا معائنہ کرنے کے لیے پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ بھارتی فوج کے کمانڈر کی جیپ جل رہی ہے اور کمانڈر کہیں نظر نہیں آرہا - اچانک وہ گنے کے کھیت سے باہر نکلا تو اس نے فوجی کیپ اور بیج اتارے ہوئے تھے پاؤں مٹی کی دلدل سے اٹے ہوئے تھے اور وہ کمانڈر کی بجائے قلی نظر آرہا تھا - جنرل نصیر اللہ بابر نے راقم کو بتایا کہ وہ 1965 کی جنگ میں سیالکوٹ کے محاذ پر کمانڈ کر رہے تھے- پائلٹ نے غلطی سے ہیلی کاپٹر بھارتی مورچے کے قریب اتار دیا- جنرل نصیر اللہ بابر پورے ہوش و ہواس میں رہے اپنا پستول ہوا میں لہرایا اور بھارتی فوجیوں سے کہا بینڈز آپ تم پاکستانی فوج کے گھیرے میں ا چکے ہو- مجھے فالو کرو اس طرح وہ بھارتی فوجیوں کو قیدی بنا کر پاکستانی مورچے کے قریب لے آئے ۔
کاش اگر جنرل ایوب خان امریکہ کے دباؤ پر جنگ کے اہم موڑ پر سیالکوٹ محاذ کی کمانڈ تبدیل نہ کرتے اور جنرل اختر حسین ملک کو تبدیل کرکے کمانڈ جنرل یحییٰ خان کو نہ دیتے تو مقبوضہ کشمیر آزاد ہو چکا ہوتا - جنرل ایوب خان نے اپنی معروف کتاب" فرینڈز ناٹ ماسٹرز " میں امریکہ کو دھوکے باز قرار دیا - 1965 کی جنگ کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو چین کی قیادت کا شکریہ ادا کرنے کے لیے چین کے دورے پر گئے تو اقوام عالم کی تاریخ و ثقافت کا شعور رکھنے والیچین کے وزیراعظم چو این لائی نے پوچھا مسٹر بھٹو پاکستان کی فوج مقبوضہ کشمیر کے اندر داخل ہو رہی تھی پھر آپ نے پیش قدمی کیوں روک دی- بھٹو صاحب نے جواب دیا لاہور خطرے میں پڑ گیا تھا -
چو این لائی نے کہا اگر بھارتی فوج لاہور میں داخل ہو بھی جاتی تو زندہ دلان لاہور اس کو ڈانگیں مار کر نکال دیتے اور اگر پاک فوج مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو جاتی تو کشمیری اسے پھولوں کے ہار پہناتے افسوس آپ نے کشمیر کی آزادی کا موقع کھو دیا- 1965 کا جزبہ تاریخ کا انمول سرمایہ ہے- جب بھارت کے جنگی طیارے لاہور پر حملے کے لیے آتے تو زندہ دلان لاہور چھتوں پر چڑھ کر نعرہ تکبیر بلند کرتے- راقم اس وقت گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھا- ہم پانچ چھ کلاس فیلوز جوش جزبات میں واہگہ بارڈر پہنچ گئے عجیب سماں تھا سینکڑوں لوگ فوجی بھائیوں کے لیے کھانے کی دیگیں لے کر آ رہے تھے- ہم نے پاک فوج کے جوانوں سے کہا ہم آپ کے شانہ بشانہ دشمن کی فوج سے لڑیں گے- وہ کہنے لگے ہمیں صرف عوام کے اعتماد اور دعاؤں کی ضرورت ہے-
1965 کے بعد لوگ پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے تھے- دکاندار ان سے اشیاء کی قیمتیں نہیں لیتے تھے-1965 کا جزبہ یاد آتا ہیتو آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلکنے لگتے ہیں- موجودہ حالات دیکھ کر دل کڑھتا اور جلتا ہے- پاک فوج اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں- یہ صورتحال پاکستان کی آزادی اور سلامتی کے لیے انتہائی تشویشناک اور اذیت ناک ہے- پاک فوج اور عوام کے درمیان 1965 کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے- پاکستان کے پاس وقت کم ہے اور مشکلات بہت زیادہ ہیں- آزادی دنیا کی سب بڑی نعمت ہے- پاک فوج بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے- ملک کا اندرونی استحکام شدید خطرے میں ہے- پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز اور عوام نیک نیتی اور حب الوطنی کے جذبے کے ساتھ قومی ڈائیلاگ کرکے اندرونی استحکام پیدا کر سکتے ہیں-
1965 کے قومی ہیروز میں بریگیڈیئر افتخار خان جنجوعہ شامل ہیں انہوں نے رن کچھ میں بھارتی پوسٹ پر پاکستانی پرچم لہرایا- بریگیڈیئر عبدالعلی ملک نے چونڈہ کے محاذ پر دلیری کے جوہر دکھائے -سکوارڈن لیڈر خلیفہ منیر الدین امرتسر رڈار سٹیشن کو تباہ کرتے ہوئے شہید ہوئے-جنگ کے اختتام پر جنرل ایوب خان نے آئی ایس آئی سے جواب طلبی کی کہ بھارتی افواج بی آر بی کینال لاہور کے قریب پہنچ گئیں اور آپ کو ان کی نقل و حرکت کا علم نہ ہوسکا - خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے جواب دیا ہمارے اہل کار سیاستدانوں کی نقل و حرکت جاننے میں مصروف رہتے ہیں-
٭…٭…٭