ستمبر 65ء کی جنگ کے وقت میری عمر محض گیارہ برس تھی اور پرائمری کا امتحان پاس کر کے گورنمنٹ ہائی سکول پاکپتن میں چھٹی کلاس میں داخل ہو چکا تھا۔ پاکپتن کا ماحول اس وقت بالکل دیہات والا تھا۔ اس وقت تک ہمیں بجلی کی سہولت بھی دستیاب نہیں تھی اس لیے گھروں میں برقی قمقموں اور پنکھوں کا بھی کوئی تصور نہیں تھا، ٹی وی، فریج جیسی الیکٹرانک اشیاء تو بہت دور کی بات تھی۔ گھروں میں مٹی کے دئیے اور لالٹین سے روشنی کی جاتی جبکہ گلیوں بازاروں میں کمیٹی والے کھمبوں پر مٹی کے تیل سے روشن ہونے والی لالٹین دن ڈھلنے کے بعد روشن کر دیا کرتے تھے۔ زیادہ تر گھر مٹی ، گارے کے بنے ہوتے تھے اور بہت زیادہ باوسیلہ لوگ ہی پختہ اینٹوں کے گھر بنایا کرتے تھے۔ اس ماحول میں رات کو دیر تک جاگنے کا بھی کوئی تصور نہیں تھا۔ محلہ پیر کریاں میں ہمارا گھر بھی چار پانچ مرلے پر مٹی گارے کا بنا ہوا تھا جس میں پانی کی سہولت ہینڈ پمپ (نلکے) سے حاصل کی جاتی تھی۔ گھر کے صحن میں بھینس باندھی جاتی اور گرمیوں میں چارپائیاں بھی اسی صحن میں بھینس کے اردگرد ڈالی جاتیں۔ والد صاحب میاں محمد اکرم (گولڈ میڈلسٹ کارکن تحریک پاکستان) مسلم لیگی کارکن ہونے کے ناطے محلے اور شہر کی سیاسی سرگرمیوں میں بھی شریک رہتے تھے اور اس ناطے سے ہمارے گھر کی بیٹھک ایک دوسرے کے ساتھ ملکی حالات کو شیئر کرنے کا ذریعہ بنا کرتی جہاں ریوالونگ حقے کی نَے باری باری ہر شریک محفل کے منہ کا رخ کرتی اور پھر منہ سے دھویں کے مرغولے چھوڑتے ہوئے ایک دوسرے کے سیاسی نظریات ملکی حالات کی مناسبت سے سامنے آتے۔
اس وقت پاک بھارت سرحدی کشیدگی عروج پر تھی چنانچہ ہماری بیٹھک میں ہونے والی نشستوں کا موضوع بھی پاکستان بھارت کشیدگی سے پیدا ہونے والی صورتحال کا بنا کرتا، اس وقت ہمیں مارشل لاء کے مضمرات کا کوئی زیادہ ادراک نہیں تھا چنانچہ ملکی حالات کی مناسبت سے صدر جنرل ایوب خاں ہمیں اپنے قومی ہیرو کے روپ میں نظر آتے۔ بچپن میں ہی مجھے مصوری کا شوق چرایا تو دیگر مشاہیر کی طرح میں نے جنرل ایوب خاں کا پورٹریٹ بھی بنا ڈالا۔ تقریباً ہر گھر میں ایوب خاں کی تصویر آویزاں ہوتی تھی۔ پورے محلے میں صرف ہمارے گھر میں سیل سے چلنے والا ایک ٹرانسسٹر ریڈیو تھا جس پر تازہ ترین خبروں کا بلیٹن سننے کے لیے محلے کے لوگ جمع رہتے۔
انہی خبروں کے ذریعے6 ستمبر 1965ء کو اطلاع ملی کہ دشمن کی فوج نے ہم پر حملہ کر دیا ہے۔ کمیٹی والوں نے خطرے کے وقت بلیک آئوٹ کرنے اور سائرن بجانے کا اہتمام کیا اور لوگوں کو اپنے گھروں میں خندقیں کھودنے کی ہدایت کی چنانچہ والد صاحب نے ہمیں ساتھ لگا کر گھر کے صحن میں چھ فٹ گہری اور اتنی ہی لمبی خندق کھود دی ، جیسے ہی سائرن بجتا ہم سب گھر والے اس خندق میں چلے جاتے اور خطرہ ٹلنے پر باہر نکل آتے مگر یہ پریکٹس زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکی کیونکہ لوگوں میں بھارتی جہاز دیکھنے اور اس پر پھبتیاں کسنے کا بھی جنون پیدا ہو چکا تھا چنانچہ -6 ستمبر ہی کی رات جب سائرن بجنا شروع ہوئے تو بلیک آئوٹ ہونے کے باوجود محلے کے سب بچے ، بوڑھے، جوان ، خندوقوں میں جانے کے بجائے گھروں کی چھتوں پر یا کھلے میدان میں آگئے تاکہ حملہ کے لیے آنے والے بھارتی جہازوں کا مشاہدہ کر سکیں۔ ہمارے علاقے میں یہ جہاز ہیڈ سلیمانکی سے اڑ کر آیا کرتے تھے اور اکثر جہاز ہماری فضائیہ کے ہتھے چڑھ کر زمین بوس ہو جاتے۔ اسی طرح اپنے علاقے میں دوچار بھارتی جہاز گرنے کا نظارہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ان تباہ شدہ جہازوں کا ملبہ ریلوے سٹیشن کے باہر گرائونڈ میں چبوترہ بنا کر سجا دیا گیا اور جنگ کے دوران ہی لوگ جوق در جوق یہ ملبہ دیکھنے کے لیے آتے رہے۔ اس وقت ریڈیو پاکستان اور ریڈیو آزاد کشمیر پر قومی ترانوں کے ذریعے عوام کے دل گرمائے جاتے اور ان میں پاکستان کے ساتھ محبت اور اس کے تحفظ کے لیے ہر قربانی دینے کا جذبہ اجاگر کیا جاتا۔ مادام نور جہاں کے ملی نغموں کی دھوم مچ گئی جبکہ مہدی حسن ، شوکت علی، مسعود رانا، احمد رشدی، مالا، نسیم بیگم اور رونا لیلیٰ کے گائے ملی نغمے بھی دلوں کو گرمانے لگے۔ جنرل ایوب خاں نے ’’ٹیڈی پیسہ دو ٹینک‘‘ کے نام سے فنڈ قائم کیا تو اس فنڈ کے لیے مختلف مقامات پر رکھے گئے گلّے پلک جھپکتے میں بھرنے لگے۔ بچے‘ بوڑھے‘ نوجوان گلیوں بازاروں میں اور اپنے گھروں کی چھتوں پر ’’میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں‘‘ … ’’غازیو‘ مجاہدو‘ جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘… ’’اے پتر ہٹاں تے نئیں وِکدے‘ توں لبھدی پھریں بازار کڑے‘‘… اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں‘ قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں‘‘ جیسے ملی نغموں کی بلند آہنگ کے ساتھ لَے جماتے اور تان اٹھاتے تو فضائوں میں وطن کی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو بکھر کر وجدوکیف کا ماحول گرما دیتی۔ قوم کا بچہ بچہ اپنی جری و بہادر سپاہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتا نظر آتا۔ اس تناظر میں ایوب خاں کے پورٹریٹ بسوں، ٹرکوں اور دوسری پبلک ٹرانسپورٹ پر آویزاں ہونے لگے جبکہ ایوب خان کے ساتھ سیاسی اختلافات کی چادر بھی لپیٹ لی گئی اور پورے ملک میں مثالی ہم آہنگی کی فضا استوار ہوتی نظر آئی۔
یہ جذبہ ایسا تھا کہ لوگ غلیلوں سے پرندوں کی طرح بھارتی جہاز بھی شکار کرنے کی لگن سے سرشار نظر آتے تھے۔ ایسے جذبے والی قوم کو بھلا کون شکست دے سکتا ہے۔
ستمبر 65 ء کی جنگ قوم کی ایسی ہی تابناکیوں کا شاہکار بنی اور بھارت کو گھٹنے ٹیک کر جنگ بندی کی راہ اختیار کرنا پڑی۔ اگر بھارت دسمبر 71ء کی جنگ میں مکتی باہنی کو آگے نہ لاتا تو یقیناً اس جنگ میں بھی وہ ایسے ہی انجام سے دوچار ہوتا۔ آج پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں ہیں اور بھارت کے سر پر جنگ کا بھوت سوار ہے۔ اسے شاید اندازہ ہی نہیں کہ آج عرصہ دراز تک چلنے والی روایتی جنگ کا زمانہ لد چکا ہے۔ اب تو بس چٹکی بجانے کی دیر ہوگی اور اس دھرتی پر موجود ہر ذی روح سمیت سب کچھ جل کر راکھ کا ڈھیر بن جائیگا۔ کیا مودی سرکار کو اس حقیقت کا علم نہیں کہ ہمارے پاس ایٹمی وار ہیڈز بھارت سے کہیں زیادہ ہیں اور پھر ہمارے ٹیکٹیکل ہتھیار تو محدود رینج میں سب کچھ جلا کر بھسم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم نے 65ء کی روایتی جنگ میں اس شاطر دشمن کے قدم نہیں جمنے دئیے اور ہماری جری و غیور سپاہ نے جرأت ، بہادری اور قربانیوں کی بے پناہ داستانیں اس جنگ کی تاریخ میں رقم کرائی ہیں تو آج جنونی مودی سرکار کس کھیت کی مولی ہے۔ وہ ہمارے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے گی تو اسے پتہ بھی نہیں چلے گا کہ اس کے ساتھ کیا بیت گئی ہے۔ تو حضور خبردار رہیے، ہمارا غلیل سے جہاز مار گرانے والا جذبہ آج بھی قائم و برقرار ہے۔ ہم سے مت ٹکرانا صاحب۔ ورنہ بھسم ہو جائو گے اور تمہاری خاک اڑتی زمانہ دیکھے گا۔
٭…٭…٭