لاہور (خبر نگار) لاہور ہائیکورٹ میں چینی کی قیمتیں مقرر کرنے کے اقدام کے خلاف دائر متفرق درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے فائل چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو ارسال کردی۔ عدالتی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ اس نوعیت کی درخواستیں کسی اور بنچ میں زیر سماعت ہیں، اس درخواست کو بھی دوسری عدالت میں سماعت کے لیے ارسال کیا جائے۔ شوگر ملز نے قیمتیں مقرر کرنے کے اقدام کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع کررکھا ہے۔ دوسری جانب پنجاب کی نگران حکومت نے چینی کی قیمتوں میں اضافے پر رپورٹ جاری کردی ہے۔ رپورٹ کے مطابق چینی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ لاہور ہائیکورٹ کا حکم امتناعی ہے، چینی قیمتوں پر حکم امتناع نے قیمتوں میں اضافے کی راہ ہموار کی، شوگر ملز کے تمام کیس مخصوص عدالت میں چلائے جاتے ہیں۔ چینی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کیاجا رہا ہے، شوگر ملز، بروکرز اور سٹہ بازوں کے ذریعے ناجائز منافع کمایا جا رہا ہے، فیصلے سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے محکمہ خوراک نے کابینہ کے لیے سمری پیش کی، کابینہ نے پنجاب فوڈ سٹفز آرڈر کے ذریعے قیمت کے تعین کا اختیار کین کمشنر پنجاب کو دیا تھا۔ کین کمشنر نے ایکس مل قیمت کے تعین کا عمل شروع کیا، کرشنگ سیزن کے دوران ملک میں کل 7.7 ملین میٹرک ٹن چینی پیدا ہوئی، 5 ملین میٹرک ٹن چینی کا ذخیرہ پنجاب میں تھا، پنجاب کے ذخائر مربوط خطے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی تھے۔ ڈبل سنچری کے بعد بھی چینی کی قیمت کو بریک نہ لگی، مزید 15 روپے کلو مہنگی ہوئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 4 مئی 2023 کو جسٹس شاہد کریم نے اس اعتراض پر کہ قیمتوں کے تعین کا موضوع صوبائی ہے اگلی تاریخ 20 ستمبر مقررکردی، کسی نہ کسی بہانے سٹے آرڈر کی تاریخوں میں توسیع کی جارہی ہے، شوگر ملز اور سٹہ باز ایک سو روپے فی کلو قیمت وصول کر رہے ہیں۔ صوبائی حکام چینی کی افغانستان میں اس کی سمگلنگ کو روکنے سے قاصر ہیں، سمگلنگ نے ملک اور بالخصوص پنجاب میں چینی کے سٹرٹیجک ذخائر کو ختم کردیا ہے، یہ ذخائر آنے والے سال میں چینی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے تھے، گنے کی فصل کی کاشت میں 17 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، اگلے سال پاکستان کو چینی کی درآمد پر خاطر خوا زرمبادلہ خرچ کرنا پڑ سکتا ہے۔ شوگرملز اوربروکرز کا گٹھ جوڑ قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار ہے، عالمی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے شوگر ملز نے چینی افغانستان سمگل کرنا شروع کردی، چینی کی قیمتیں بروکرز مختلف واٹس ایپ گروپس کے ذریعے بڑھاتے ہیں، چینی کی صورتحال دن بدن سنگین ہوتی جارہی ہے۔ چینی کی قیمت مزید بڑھنے کا خدشہ ہے، حکم امتناعی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ملک اور صوبہ مزید بحران کا شکار ہوگا۔ قیاس آرائی کرنے والوں نے چینی مارکیٹ میں تقریباً تباہی مچا رکھی ہے۔ قیاس آرائی کرنے والوں کو ایم پی او کے تحت حراست میں لینے کی ضرورت ہے، شوگر ملز، ڈیلرز، بروکرز، قیاس آرائیاں کرنے والوں نے مہنگی چینی بیچ کر 55 سے 56 ارب روپے ہتھیائے۔ ہر مل میں پانچ چھ بروکر ہوتے ہیں جو ڈیلرز کو چینی فروخت کرتے ہیں۔