یومِ دفاع اور ملک کو درپیش سنجیدہ اقتصادی و سیاسی مسائل

آج 6 ستمبروطن عزیز کا 58واں یومِ دفاع ہے۔ قوم ہر سال ملی جوش و جذبے اور ملک کی بقاء و سلامتی کی خصوصی دعائوں کے ساتھ یومِ دفاع مناتی ہے اور اس سلسلے میں ہونے والی سرکاری تقریبات میں مسلح افواج کی پریڈ کے ساتھ ساتھ جدید اسلحہ اور دوسرے جنگی سازوسامان کی نمائش کرکے دشمن پر اپنی عسکری برتری کی دھاک بٹھائی جاتی ہے۔ اس بار بھی قوم یومِ دفاع منا تو رہی ہے اور مختلف سرکاری اور نجی ادارے آج اس حوالے سے تقریبات کا انعقاد کر رہے ہیں لیکن ملک کو درپیش سنجیدہ اقتصادی و سیاسی مسائل نے عوام کو ایک عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے جو ان کی وطنِ عزیز سے محبت کو بھی گہنا رہا ہے۔ روایتی طور پر آج دن کا آغاز مساجد میں نماز فجر کے بعد شہدائے جنگ ستمبر کے لیے قرآن خوانی اور ملک و قوم کی سلامتی و استحکام کی خصوصی دعائوں سے ہوگا جبکہ دفاع وطن کے لیے جانیں نچھاور کرنے والے پاک فوج کے جوانوں اور افسران کی قبور اور یادگاروں پر پھول چڑھانے کی تقاریب کا انعقاد ہوگا اور شہداء کے لیے فاتحہ خوانی کی جائے گی۔ اس حوالے سے آج سول و فوجی حکام، سیاسی قائدین اور عوام شہداء کی یادگار باٹاپور اور بھسین گا?ں میں حاضری دیں گے جہاں شہدائ￿ کی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھائی جائیں گی۔ 
آج یومِ دفاع کی اہمیت اہلِ پاکستان کے لیے اس حوالے سے بھی اجاگر ہوئی ہے کہ ہمارے شاطر و مکار دشمن بھارت کی مودی سرکار نے چار سال قبل 5 اگست 2019ء کو بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35اے کو ختم کرکے اپنے ناجائز زیرتسلط کشمیر کو مستقل طور پر بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنایا جس کے بعد اس نے پاکستان کی سلامتی کو بھی کھلا چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ یہ صورتحال پوری قوم کے اپنی جری و بہادر افواج کے ساتھ سیسہ پلائی دیواربن کر کھڑے ہونے کی متقاضی ہے اور مسلح افواج نے مکمل طور پر اپنی توجہ دفاع وطن کی ذمہ داریوں پر مرکوز رکھنی ہے جس کے لیے افواج پاکستان میں یکسوئی کی ضرورت ہے تاہم اس کے ساتھ ہمیں سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھی بین الاقوامی برادری اس سلسلے میں ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے کیونکہ بھارت چند مہینے پہلے اپنے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں جی ٹونٹی اجلاس کرا چکا ہے اور آئندہ چند مہینے میں وہاں مس ورلڈ مقابلے کا انعقاد کرانے جارہا ہے۔ ایسی سرگرمیوں کے ذریعے بھارت دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ مقبوضہ وادی متنازعہ علاقہ نہیں بلکہ اس کا حصہ ہے۔ یہ صورتحال اقوامِ متحدہ سمیت ہر اس عالمی ادارے کے لیے چیلنج ہے جو یہ تسلیم کرتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اسے صرف ایک صورت میں ہی غیر متنازعہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیں اور پھر ان کی طرف سے جو فیصلہ ہو اسے مان لیا جائے۔
جہاں تک دفاعِ وطن کی بات ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلح افواج میں آرمی چیف سے سپاہی تک ہر افسر و اہلکار حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے اور دفاع وطن کا ہر تقاضا نبھانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ آج ہمارا مکار دشمن بھارت جن گھنا?نی سازشوں کے تحت پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے اس کے پیش نظر تو قوم کی جانب سے عساکر پاکستان کے حوصلے بڑھائے رکھنے کی ضرورت ہے۔ چہ جائیکہ اس قومی ادارے کے اتحاد و یکجہتی کے حوالے سے قوم کے ذہنوں میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ قوم کا تو ہر فرد، ہر ادارہ اور ہر شعبہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے اور اقوام عالم میں اس کا تشخص خراب کرنے کی بھارتی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لا رہا ہے جن میں قومی کھیلوں کا شعبہ بھی شامل ہے۔ جاری ایشیا کرکٹ کپ میں پاکستان کی کارکردگی اب تک بہتر دکھائی دے رہی ہے۔ ہماری قومی کرکٹ ٹیم کے افتتاحی میچ میں نیپال کو شکست دے چکی ہے جبکہ بارش کی وجہ سے بھارت کے ٹیم ہمارے ہاتھوں عبرتناک شکست کا سامنا کرنے سے بچ گئی۔ 
یوم دفاع کے موقع پر قوم کی جانب سے بھارت کو یہ ٹھوس پیغام ہے کہ پاکستان کی سلامتی کی جانب اٹھنے والی اس کی میلی آنکھ پھوڑ دی جائے گی۔ قوم کا یہی جذبہ 65ء کی جنگ میں عساکر پاکستان کے شامل حال تھا جو بھارت کی جانب سے ہم پر مسلط کی گئی تھی۔ اس جنگ میں بے شک افواج پاکستان نے ہر محاذ پر دفاع وطن کے تقاضے نبھاتے ہوئے دشمن کے دانت کھٹے کیے اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرتے ہوئے مکار دشمن کی افواج کو زمینی، فضائی اور بحری محاذوں پر منہ توڑ جواب دے کر قربانیوں کی نئی اور لازوال داستانیں رقم کیں جبکہ پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت و پاسبانی کے تقاضے نبھاتی رہی۔ اس جنگ نے ہی قوم میں ’پاک فوج کو سلام‘ کا بے پایاں جذبہ پیدا کیا تھا جس کے نتیجہ میں ملک کی مسلح افواج نے اپنے سے تین گنا زیادہ دفاعی صلاحیتوں کے حامل مکار دشمن بھارت کی فوجوں کو پچھاڑ کر انھیں پسپائی پر مجبور کیا اور بھارتی لیڈران اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی دہائی دیتے نظر آئے۔ 
اہل وطن دفاع وطن کے اس جذبے کو تازہ رکھنے اور نئے عزم و تدبر کی صف بندی کے لیے ہر سال 6 ستمبر کو یوم دفاع کے طور پر مناتے ہیں جو حب الوطنی کا تقاضا بھی ہے۔اس برس یوم دفاع کی اہمیت اس لیے زیادہ ہو گئی ہے کہ آج بھارت نے عملاً جنگ کی فضا پیدا کر رکھی ہے جو ہماری سلامتی کے بھی درپے ہے اور ہمیں دنیا میں تنہاکرنے کی سازشوں میں بھی مصروف ہے مگر اس پر ایسا خدا کا غضب ٹوٹا ہے کہ وہ زخم چاٹ رہا ہے۔ افغانستان سے امریکا کے انخلاء کے ساتھ ہی بھارت کو بھی رسوا ہوکرافغانستان سے دم دبا کر بھاگنا پڑا۔ اس کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ڈوب گئی اور پاکستان میں مداخلت کے راستے بند ہوگئے۔ وہ اب پاکستان کے خلاف سازشوں کے نئے جال بن رہا ہوگا۔ اس صورتحال میں ہر پاکستانی کو اپنے حصے کا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے وطنِ عزیز کے مضبوط اور مستحکم بنانا چاہیے اور ان عناصر کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جو مایوسی پھیلا کر نئی نسل کو ملک سے متنفر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں نگران حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ عوام کو فوری ریلیف مہیا کرے کیونکہ اگر ملک کی غالب اکثریت اقتصادی مسائل میں الجھ کر پریشانیوں کا شکار رہے گی تو اس سے یقینا اس کا ریاست اور اس کے اداروں پر اعتماد متزلزل ہوگا۔ مزید یہ کہ پاکستان کو اس وقت جن اقتصادی اور سیاسی مسائل کا سامنا ہے انھیں حل کرنے کے لیے فوری طور پر عام انتخابات منعقد کرائے جانے چاہئیں تاکہ عوامی مینڈیٹ سے بننے والی ایک مستقل حکومت اقتدار میں آ کر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشش کرسکے۔
ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہمارے اس مکار دشمن بھارت نے 65ء کی جنگ میں پاک فوج کے ہاتھوں اٹھائی جانے والی ہزیمت کا 71ء کی جنگ میں بدلہ چکانے کی سازش کی اور سانحۂ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں اس ارض وطن کو دولخت کردیا۔ اس وقت بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے یہ بڑ ماری تھی کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے جبکہ ہندو جنونیت نے عملاً دو قومی نظریے کو مزید اجاگر کردیا۔ بھارت نے باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی خدانخواستہ ختم کرنے کے لیے ایٹمی صلاحیت حاصل کی تو پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کشمیر کی آزادی کے لیے بھارت سے ہزار سال تک جنگ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کے لیے ایٹمی قوت کے حصول کا عزم بھی باندھ لیا جس کے لیے بعد میں آنے والے تمام حکمرانوں نے ملکی دفاع کے تقاضوں کے مطابق اپنا اپنا حصہ ڈالا اور جب مئی 1998ء میں بھارت نے دوسری بار ایٹمی دھماکے کیے تو اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف نے 28 مئی 1998ء کو بٹن دبا کر تین بھارتی دھماکوں کے جواب میں پانچ دھماکے کرکے پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا اور دنیا کو باور کرایا کہ ہم خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کا ڈٹ کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
ہمارے اس مکار دشمن کو اب تک پاکستان پر 65ء اور 71ء جیسی جارحیت مسلط کرنے کی تو جرأت نہیں ہوئی مگر وہ دوسرے محاذوں پر پاکستان کی سلامتی کے خلاف گھنا?نی سازشوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔ بھارت ہی کی مکاری ہے جس کے تحت پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کی سازش کی جاتی ہے اور دوسری جانب دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر اسے اقوام عالم میں تنہا کرنے کی سازشی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈالنا اسی سازش کا حصہ تھا جبکہ بھارت پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈلوانے کے لیے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگاتا رہا۔ یہ سلسلہ ابھی بھی نہیں رکا اور پاکستان کے خلاف بھارت کی گھناؤنی سازشیں اب بھی جاری ہیں جن پر نظر رکھنے اور ہر موقع پر ان کا بھرپور دینے کی ضرورت ہے۔
سپہ سالار جنرل عاصم منیر بھارتی عزائم کے تناظر میں کنٹرول لائن پر اگلے مورچوں پر جا کر جوانوں کا حوصلہ بڑھاتے اور دشمن کو دفاع وطن کے لیے مکمل تیار اور چوکس ہونے کا ٹھوس پیغام دیتے رہتے ہیں۔26 اور 27 فروری 2019ء کو پاک فضائیہ کی جانب سے بھارتی فضائیہ کو مسکت جواب دے کر اور اس کے بعد پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہونے والے 9 جاسوس ڈرونز گرا کر دشمن کو دوٹوک انداز میں باور کرادیا گیا ہے کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے اور ناقابل تسخیر ہے۔ آج کا یوم دفاع قومی، سیاسی، عسکری قیادتوں اور پوری قوم سے اس امر کا ہی متقاضی ہے کہ اتحاد و یکجہتی کے تحت دفاع وطن کے تقاضے نبھائے جائیں تاکہ دشمن کو ہماری جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ ہوسکے۔

ای پیپر دی نیشن