قومی ایام میں چھ ستمبر کو دفاع مادر وطن کے حوالے سے نمایاں اور مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔59 برس قبل اسی روز بھارتی سورماو¿ں نے پاک سرحدوں کو عبور کیا۔جارجیت کا دروازہ کھولا ‘ پڑوسی ملک پر حملے کی ناپاک روایت کو جنم دیا، یہ جارحیت اور حملہ ان خوش فہمیوں کا نتیجہ ہے جس نے بھارتی قیادت اور فوج کو غرور کے چوتھے آسمان پر بٹھایا ہوا تھا۔ ہندوستانی سیاست دان اور فوجی آفیسر طنزاً کہا کرتے تھے کہ وہ حملہ کے دن صبح کا ناشتہ اپنے دیس میں کریں گے جبکہ ڈنر لاہور پر قبضہ کے بعد وہاں پاکستانی کھانوں سے ہوگا۔ یہ ہے خوش گمانی اور خوش فہمی کا وہ پس منظر جس نے پاکستان قوم کو نیند سے ”بیدار“ کردیا۔ 6 ستمبر1965ءدراصل تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کا ہی تسلسل ہے۔ چودہ اگست 1947ئ کو پاکستانی قوم نے اذیت ‘ الم‘ تکلیف اور خون کے جو سمندر عبور کئے ان مصائب نے قوم کو عزم وحوصلے کی ایسی مضبوط ریشمی دوڑی میں باندھا ہوا تھا جس نے ایک ایک فرد کو ملت کا ناگریز ستارا بنا دیا۔ حضرت اقبال? یاد آگئے
فرد قائم ربط ملت سے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
چھ ستمبر 1965 کو پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ پاکستان اور اہل پاکستان نے ثابت کیا کہ اسے اپنے مادروطن کا دفاع کرنا خوب آتا ہے جو قوم شہادت کے جذبے سے مرقع اور مامور ہو اسے شکست دینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ذرا فلسطین پر نظر ڈالیں 7 اکتوبر سے ابتک 11 ماہ کے دوران ہونے والی بارود کی بارش میں 42 ہزار بے گناہ مسلمان شہادت کے درجے پر فائز ہوچکے ہیں مگر دنیا کی بڑی اور مسلح طاقت ان جذبوں کو سرنگوں نہ کرسکی۔ کشمیر کو دیکھ لیں!! بھارتی سامراج 77 برس سے نہتے کشمیریوں پر حملہ آور ہے۔ 5 اگست 2019 اور آرٹیکل 370 کے بعد سے پوری وادی قید خانے میں تبدیل ہو چکی۔ مجال ہے کشمیریوں کا جذبہ حریت سرد ہوا ہو!!
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگیاں اور تنازعات معمول بن گئے تھے، جن میں سب سے بڑا مسئلہ کشمیر تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان کئی بار جنگیں ہوچکی تھیں اور سرحدی تنازعات بھی جاری رہے۔ 1965ئ میں بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کیا، جس کے نتیجے میں جنگ شروع ہوئی۔ 6 ستمبر کی صبح بھارت نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے لاہور کے قریب بین الاقوامی سرحد عبور کی اور پاکستانی علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔پاکستانی فوج نے فوراً ردعمل دیتے ہوئے دشمن کی پیش قدمی کو روک دیا۔ بیدیاں اور واہگہ کے علاقوں میں بھارتی افواج نے پاک فوج کی زبردست مزاحمت کا سامنا کیا۔ اسی دوران، کھیم کرن کی طرف بھارتی افواج کی پیش قدمی بھی ناکام ہو گئی۔ پاکستانی فوج نے نہ صرف دشمن کو سرحد پار دھکیل دیا بلکہ اس کے جوابی حملے میں بھارتی افواج کو بڑی شکست دی۔پاکستانی افواج نے اپنے عزم و حوصلے کے ساتھ دشمن کی ہر جارحیت کا جواب دیا۔ پاک فضائیہ نے بھارتی ایئر بیسز پر حملے کیے جن میں پٹھان کوٹ، آدم پور اور ہلواڑہ شامل تھے۔ ان حملوں میں دشمن کے درجنوں طیارے تباہ ہوئے اور بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ دی گئی۔ بین الاقوامی مبصرین نے ان حملوں کو بھارتی فضائیہ کے لیے ایک زبردست دھچکا قرار دیا۔پاکستان بحریہ نے بھی بھارت کی کراچی بندرگاہ پر پیش قدمی کو روک دیا اور دوارکا میں بھارتی طیاروں اور ریڈار سسٹم کو تباہ کیا۔ پاکستان نے ہر محاذ پر دشمن کو شکست دی اور عالمی سطح پر اپنی بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کا لوہا منوایا۔ اس وقت پاکستانی قوم نے اپنی فوج اور ملکی سلامتی کے لیے متحد ہو کر دشمن کو بھرپور جواب دیا۔جنگ کے دوران پاکستان کو مختلف ممالک کی جانب سے مدد حاصل ہوئی۔ انڈونیشیا نے پاکستان کے حق میں کارروائی کرتے ہوئے اندمان اور نکوبار کے جزائر کا محاصرہ کروایا اور دو آبدوزیں اور دو میزائل بردار کشتیاں روانہ کیں۔ ایران نے پاکستان کو مفت تیل فراہم کیا اور زخمی فوجیوں کے علاج کے لیے ادویات بھی فراہم کیں۔ ترکی نے بھی پاکستانی فوجیوں کی مدد کے لیے نرسوں کے گروپ بھیجے۔ چین نے واضح طور پر کہا کہ وہ پاکستان کی ہر ممکن مدد کرے گا اور امریکہ اور روس پر اعتماد نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ پاکستان نے 1965 کی جنگ میں نہ صرف اپنے دفاع میں کامیابی حاصل کی بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی پوزیشن مستحکم کی۔ دشمن کی جارحیت کو ناکام بنانے کے بعد پاکستان نے عالمی برادری کو یہ پیغام دیا کہ جب قوم متحد ہو اور فوج کا جذبہ بے مثال ہو تو کسی بھی بڑے دشمن کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ بھارتی افواج کو پاکستان کی بہادری اور جنگی حکمت عملی کے سامنے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔6 ستمبر کے دن ہمیں شہدائ اور غازیوں کی قربانیوں کو یاد کرنے کا موقع ملتا ہے!!