اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا

Sep 06, 2024

رانا-ضیا-جاوید-جوئیہ  

قارئین گرامی 6 ستمبر 1965 کے دن پاکستان سے کئی گنا بڑے دشمن ملک بھارت نے پاکستان پر اس یقین سے حملہ کیا کہ وہ چند گھنٹوں میں پاکستان کو فتح کر لے گا لیکن آفرین ہے اس وقت کے مجاہدین کو کہ انہوں نے دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیئے لاہور کا محاز ہو یا چونڈہ کا ، فضائی معرکے ہوں یا بحری معرکے ہر ہر محاز پر جزبہ شہادت سے سرشار پاکستانیوں نے ایک تاریخ رقم کی لاہور کے محاز پر میجر عزیز بھٹی شہید جیسے لوگوں نے دشمن کی کئی گنا بڑی فوج کو بی آر بی کے کنارے روک لیا اور چونڈہ کے محاز پر دشمن کے سینکڑوں ٹینکوں کو پاکستانیوں نے جسموں پر بم باندھ کر اڑا کر رکھ دیا ،ائر کموڈور ایم ایم عالم جیسے پاکستانی شاہینوں نے سیبر جیسے پرانے جہاز کے ذریعے ہی ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے 5 جنگی طیاروں کو مار گرایا پاکستان بحریہ نے دوارکا میں تاریخ رقم کی اور سمندری پانیوں میں پاکستانی بحریہ نے اپنی حکمرانی قائم رکھی اور پاکستان آنے جانے والے بحری جہازوں کی آمدورفت کو مکمل محفوظ رکھا اور دوارکا میں ایسی تباہی مچائی کہ دشمن نے سمندر کے ذریعے کراچی فتح کرنے کے خواب کو بھول کر اپنی فکر کرنا شروع کی ۔
قارئین گرامی 6 ستمبر ہمارے لئے تاریخ ساز اس لئے بھی ہے کہ اس وقت ہم اس وقت کے صدر مملکت جنرل ایوب خاں کے خطاب کے بعد دشمن کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے ایک قوم بن کر سامنے آئے اس وقت ہر پاکستانی بس ایک مرد مجاہد بن گیا اور ملک کے ہر کونے سے بس یہی ایک آواز آ رہی تھی
اے مرد مجاید جاگ ذرا
اب وقت شہادت ہے آیا
سکول کے بچوں سے لے کر بزرگ شہریوں اور خواتیں تک نے پورے جزبوں سے اس جنگ میں حصہ لیا اور نہ صرف ملک کا دفاع دشمن کے حملے کو روک کر کیا بلکہ دوارکا اور کھیم کرن جیسی فتوحات حاصل کر کے دشمن کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ پاکستان لیتا لیتا کہیں بھارت ہی نہ دے بیٹھے پوری دنیا حیران ہے آج تک کہ اس وقت پاکستانی قوم میں اتنا جزبہ کیسے اور کہاں سے آ گیا تھا لیکن اس وقت وہی صورتحال تھی جو علامہ محمد اقبال نے اپنے ایک مشہور شعر میں کہی تھی
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
کافر ہے تو ہے تابع تقدیر مسلمان
مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیر الہی
یقینی طور پر 1965 میں پاکستان کے مومن بے تیغ لڑے کیونکہ دشمن کے سینکڑوں ٹینک تھے اور پاکستانیوں کے جسموں پر بم تھے، دشمن کے جدید لڑاکا طیارے تھے اور کثیر تعداد تھے جبکہ پاکستان نے سیبر جیسے طیاروں کے ذریعے نہ صرف پاکستان میں اپنی فوج کو دفاع فراہم کیا بلکہ دشمن کے علاقہ میں گھس کر دشمن کی نقل و حرکت ختم کر کے رکھ دی 1965 کے واقعات اس وقت کے جنگی معرکے لکھنا مقصد نہی ہے مقصد یہ بتانا ہے کہ اس وقت پاکستانی ایک قوم بن گئے تھے اور جب پاکستانی ایک قوم بنے تو پھر بظاہر ناممکن نظر آنے والے دفاع کو نہ صرف یقینی بنایا بلکہ دشمن کے دل کے اندر ایسی دہشت بٹھا دی کہ اسے فکر پڑ گئی کہ کھیم کرن وغیرہ کے بعد پاکستان پورے بھارت پر بھی قبضہ کر سکتا ہے 
دشمن مانے یا نہ مانے پوری دنیا یہ مان گئی اس وقت کہ وسائل جزبوں کو شکست نہی دے سکتے لیکن 1965 کی جنگ اب ہماری تاریخ کا حصہ ہے ہم نے 1965 والے جزبوں کو سلامت نہی رکھا اور دشمن کو ایک قوم بن کر شکست دینے کے بعد ہم پھر ایک قوم نہ رہے جس کی سزا ہمیں 1971 میں سقوط ڈھاکہ کی صورت میں ملی اور دشمن کی وزیراعظم کو یہ کہنے کا موقعہ ملا کہ ہم نے نظریہ پاکستان کو آج خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے لیکن دشمن کی یہ بھول تھی کہ نظریہ پاکستان ختم ہو گیا ہے کیونکہ جب دشمن نے ایٹمی قوت حاصل کرنے کی کوشش شروع کی تو ہم نے وسائل کم ہونے کے باوجود صرف اور صرف نظریئے کی طاقت سے دشمن سے بہتر ایٹمی صلاحیت حاصل کی 
آج ہمیں 1965 کے واقعات نوجوان نسل کو بتانے ضرور چاہئے لیکن ان واقعات سے زیادہ ہمیں وہ جزبے اپنی موجودہ نسل میں بیدار کرنے کی ضرورت ہے آج دشمن نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے پھر سے اعلان جنگ کر دیا ہوا ہے اور دشمن نے ہمارے بلوچستان جیسے معدنی وسائل سے مالا مال صوبے کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کا سوچا ہے تاکہ گوادر اور سی پیک کے ثمرات پاکستان کو نہ مل سکیں اسی طرع دشمن نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ پاکستان کے مختلف صوبوں کے درمیان فاصلے پیدا کر دیئے جائیں اور دشمن نے ہمیں مزہبی لسانی طور پر تقسیم در تقسیم کرنے کے نا صرف منصوبے بنائے ہیں بلکہ دشمن ان پر بہت تیزی سے پورے وسائل کے ساتھ کام بھی کر رہابے اور ان سب کے ساتھ ساتھ دشمن نے بہت ہی غیر محسوس طریقے سے ایک ایسا طبقہ ہمارے ملک میں پیدا کر لیا ہے جو دشمن کی پراپیگنڈہ وار میں دشمن کے ہتھیار کے طور پر کام کرتے ہوئے ہر وقت پاکستان کے خلاف زہر اگلتا رہتا ہے اور پاکستان کی سلامتی کے ذمہ دار اداروں اور عوام کے درمیان نفرت بڑھانے کے لئے مسلسل کام کر رہا ہے اس سب کے ساتھ ساتھ ہماری نوجوں نسل تعلیم تو حاصل کر رپی ہے لیکن ان میں تربیت کا پہلو مفقود ہے آج ہمیں 1965 والے جزبوں کی پھر سے ضرورت ہے اور ہمیں اس وقت کے اپنے آباواجداد کی طرع ایک قوم بننا ہے اور اس مشکل وقت کو وقت شہادت سمجھ کر پھر سے جاگنا ہے آج ہمیں جن چیزوں کی ضرورت ہے میرے اس آرٹیکل کا مقصد انہیں ڈسکس کرنا ہے تاکہ ہم پھر سے ایک قوم بن کر ناقابل تسخیر رہیں
سب سے پہلی ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی نوجوان نسل کو قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ پاکستان ہمارے لئے کتنی بڑی نعمت خداوندی ہے انہیں آزادی کی قدروقیمت بتانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ پاکستان کی اہمیت سے آگاہ ہو جائیں اس سلسلہ میں قومی سطح پر ایک مہم کی ضرورت ہے جس میں گھر سکول دفاتر ہر جگہ پر بچوں کو پاکستان کی قدرو قیمت سے آگاہ کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ پاکستان حاصل کرنے کے لئے ہمارے آباواجداد نے کتنی قربانیاں دیں ہیں اور ساتھ ساتھ انہیں کشمیر، برما ، غزہ ، عراق وغیرہ کے حالات بتائے جائیں بالخصوص انہیں بتایا جائے کہ بھارت جیسے ملک میں مسلمان اپنا مزہبی فریضہ قربانی بھی ادا کرتے ہوئے اس کی قیمت چکاتے ہیں نوجوان نسل کو آگاہ کرنا سب سے بڑی ضرورت ہے تاکہ یہ نسل پاکستان اور نظریہ پاکستان کا دفاع دل و جان سے کر سکے
ہمیں سب اچھا کی گردان کرنے کی بجائے کھلے دل سے اپنی غلطیاں تسلیم کرنا چاہئے خاص طور پر ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ پاکستان اسلام کے نام پرحاصل کیا گیا تھا لیکن ہم ہر روز اسلام سے دور ہوتے جا رہے ہیں اسلام ہمارے درمیان اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے کیونکہ اگر ہم اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے مطابق کر لیں تو پھر ملک کے ہر کونے میں بسنے والے مسلمان آپس مین بھائی بھائی بن جائیں گے، ملک سے ظلم و نا انصافی کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور ملک ایک مکمل فلاحی مملکت بن جائے گا پھر پاکستان کی سالمیت زیادہ محفوظ ہو گی
عدم برداشت ہمارے لئے زہر قاتل بنتی جا رہی ہے اسی عدم برداشت کی وجہ سے ہم دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنا تو دور کی بات اسے سننا بھی نہی چاہتے سیاسی جماعتیں بھی اور ادارے بھی اتفاق و اتحاد کی باتیں کرنے کی بجائے عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی سالمیت کو لاحق خطرات میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں ہمیں اسلامی تعلیمات کے مطابق رواداری ،بردباری ،حق گوئی،ایثار و قربانی، عدل و انصاف ، امانت و دیانت اور خلوص و محبت جیسی اسلامی صفات اپنے اندر پھر سے بیدار کر کے حسن اخلاق کا مظاہرہ پھر سے کرنا ہے 
ملک میں رہتے ہوئے ملک کے خلاف بات کو البتہ برداشت نہی کرنا ہر وہ شخص یا ادارہ جو ملک کے خلاف بات کرے اس کا سختی سے محاسبہ کرنا ہے اس یقین کے ساتھ کہ کوئی پاکستانی ہر چیز کے خلاف ہو سکتا ہے مثال کے طور پر ظلم و نا انصافی کے خلاف ہو سکتا ہے، مہنگائی کے خلاف ہو سکتا ہے بے روزگاری کے خلاف ہو سکتا ہے لیکن کبھی بھی وہ پاکستان کے خلاف نہی ہو سکتا پاکستان کے خلاف ہو سکتا ہے تو صرف دشمن یا پھر دشمن کا ایجنٹ اس لئے ہمیں اپنی صفوں میں ایسے لوگوں کو برداشت نہی کرنا جو جانے انجانے میں دشمن کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں کھل کر کہا جائے تو تنقید کاحق ہر ایک کو حاصل ہے لیکن یہ تنقید افراد کے خلاف ہو سکتی ہے، سیاسی جماعتوں پر ہو سکتی ہے، اداروں پر یو سکتی ہھ لیکن کبھی بھی یہ تنقید پاکستان کے خلاف برداشت نہی کی جا سکتی اس لئے کہ پاکستان کا قصور نہی ہے کوئی بھی پاکستان ہمارے لئے نعمت خداوندی ہے اور ہم اپنی زندگیوں سے زیادہ پاکستان سے پیار کرتے ہیں اور پاکستان کی سالمیت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز اور ہر کوشش کو ہم مکمل ناکام بنا دیں گے
پاکستان کی سالمیت کے تحفظ کے لئے ہمیں پاکستان کو اقتصادی طور پر مضبوط ترین بنانا ہے اور اقتصادی قوت بننے کے لئے گوادر اور سی پیک ہمارے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، اسی طرع پورے ملک میں امن و امان کی صورتحال کا بہتر ہونا، بالخصوص کراچی جیسے تجارتی مراکز میں مکمل امن و امان کا ہونا بہت اہم ہیں گوادر، سی پیک کراچی سمیت کراچی سے گلگت بلتستان تک پورے ملک میں امن و امان ہمارے اقتصادی حالات کو بہتر کرنے کے لئے بہت ضروری ہے دشمن نے گوادر اور سی پیک کو ہماری سالمیت کا اصل محافظ سمجھتے ہوئے اپنی پوری توانائیاں آج کل انہیں روکنے کے لئے لگائی ہوئی ہیں بلوچستان کے بگڑتے حالات اور وہاں پر حالیہ ٹارگٹ کلنگز بالخصوص وہان پنجابیوں کا قتل عام کوئی بلوچ کبھی نہی کر سکتا یہ دشمن کے دہشت گرد ہیں جو یہ سب اس لئے کر رہے ہیں کہ صوبوں کے درمیان نفرتوں کا سلسلہ وسیع کیا جا سکے ہمیں آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بلوچ بھائیوں کو یہ بتائیں کہ ہمیں پورا اعتماد ہے کہ بلوچ بھائی پاکستان اور اسلام سے محبت کرنے والے محب وطن پاکستانی ہیں اور یہ قتل عام دشمن کے دہشت گردوں کر رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ہمیں حکومتی سطح سے یہ یقینی بنانا ہو گا کہ بلوچستان کے عام عوام کو تمام سہولیات میسر ہوں ، انہیں مناسب علاج معالجہ بھی ملے، ان کے بچوں کو تعلیم کی بیترین سہولیات بھی حاصل ہوں ان کے علاقہ میں عدل و انصاف کی فراہمی کے ذریعہ امن و امان بھی قائم ہو اور انہیں روزگار کے مناسب مواقع بھی میسر ہوں اور سب سے بڑھ کر انہیں یہ اعتماد ہو کہ پاکستان انکے لئے بہترین ملک ہے تاکہ دشمن کسی بھی پراپیگنڈہ کے ذریعے انہیں پاکستان سے دور نہ کر سکے
اس سب کے ساتھ ساتھ ہمیں پاکستان کے تعلیمی نظام کو بھی بہتر بنانا ہے تاکہ امیر اور غریب کے بچے تعلیم کے یکساں مواقع حاصل کر سکیں اور تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی فوکس کرنا ہے تعلیم کا ناگزیر جزو تربیت ہے جسے پھر سے اہمیت دینے کی ضرورت ہے تعلیم ایک ایسی قوت ہے جو پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے
اس قوم سے یا پاکستان سے مایوس ہونے کی بجائے ہمیں پھر سے ایک قوم بننے کی ضرورت ہے ستمبر 1965 کو صرف یوم دفاع منانے سے مسئلہ حل نہی ہو گا بلکہ ستمبر 1965 والا جزبہ پیدار کرنے سے ہمارے مسائل حل ہوں گے اور یقین مانیئے جس دن ہم ایک قوم بن گئے اسی دن ہمارے مسائل ختم ہو جائیں گے
بقول شاعر

نہی ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویران سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
ہمیں صرف تھوڑے سے نم کی ضرورت ہے اور یہ نم ہمیں اسلام فراہم کرتا ہے جس روز ہم نے اسلام پر عمل پیرا ہونا شروع کر دیا اسی روز ہمارے تمام مسائل ان شائ اللہ ختم ہو جائیں گے بس ضرورت ہے تو مرد مجاہد کے جاگنے کی

مزیدخبریں