اسلام سے قبل عورت کی بالکل بھی عزت و تکریم نہیں کی جاتی تھی۔ دنیا عورت کو ذلت اور حقارت کی نظر سے دیکھتی تھی۔ اس کی حیثیت صرف بچے پالنے والی لونڈی جیسی تھی۔ عورت ہر قسم کے حقوق سے محروم تھی اسے گھر میں بند کر دیا جاتا اور شوہر کے سامان میں سے ایک سامان تصور کی جاتی تھی۔
بیوہ عورت دوسرا نکاح نہیں کر سکتی تھی۔ عرب میں عورت پر بہت ظلم و ستم کیا جاتا تھا۔ طلاق کی کوئی حد مقرر نہیں تھی۔ شوہر کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ نہ رجوع کرے اور نہ ہی اسے کسی سے نکاح کرنے دے۔ اگر باپ مر جاتا تو اس کی بیویاں اس کے بیٹوں کی میراث سمجھی جاتی تھیں سوائے ان کی حقیقی ماﺅں کے۔ وہ ان سے نکاح کر لیتے یا انہیں فروخت کر دیتے تھے۔ بیٹیوں کو معیوب سمجھا جاتا تھا اور پیدا ہوتے ہی زندہ در گور کر دیاجاتا تھا۔ بعض لوگ بیٹی پیدا ہونے پر نادم ہوتے اور لوگوں سے چھپتے پھرتے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :” ان میں جب کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خبر دی جاتی تو دکھ کے مارے اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے۔ وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا کہ اسے کیسی بری خبر ملی ہے۔ اب ذلت برداشت کرتے ہوئے اسے سنبھالے رکھے یا اسے زمین میں گاڑ دے۔خبر دار یہ بہت ب±را فیصلہ کرتے ہیں “۔ ( سورة النحل )۔
ایک قبیلہ کے رئیس کے گھر بیٹی کی ولادت ہوئی تو اس نے گھر میں آنا چھوڑ دیا۔ ماں بیٹی کو یہ لوریاں دے کر سلاتی تھی۔ ” وہ ہم سے اس لیے ناراض ہیں کہ ہم بیٹے نہیں جنتے اس میں ہمیں اپنے چاہنے پر کوئی اختیار نہیں ہے۔ ہمارا اختیار تو صرف اسی پر ہے جو ہمیں دیا جائے۔ہمارے متعلق یہ ہمارے رب کی حکمت ہے “۔ (تفیر الخازن )
لیکن جب آمنہ کے لال امت کے غم خوار رحمت دو عالم سرور کائنات حضرت محمد دنیا میں تشریف لائے تو عورت کو کھویا ہوا مقام واپس مل گیا۔ آج عورت کو جو بھی مقا م و مرتبہ حاصل ہے وہ حضور نبی کریم ﷺ کی ہی بدولت ہے۔ جب پوری دنیا عورت کو حقارت کی نظر سے دیکھتی تھی تب حضور نبی کریم ﷺ نے عورت کو عزت بخشی۔ آپ نے فرمایا جب کسی کے گھر بیٹی پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کے گھر آتے ہیں اور کہتے ہیں اے گھر والو تم پر سلامتی ہو۔وہ بچی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں۔یہ ایک کمزور جان ہے جو کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے۔ جو اس بچی کی پرورش کرے گا قیامت تک اللہ تعالی کی مدد اس کے ساتھ شامل رہے گی۔
بعثت نبی اور حقوق نسواں(۱)
Sep 06, 2024