یوم دفاع اور بلوچستان میں احساس محرومی کابیانیہ !

پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات کا ادراک رکھنے کے باوجود پاکستان میں ایسی سوچ کے حامل افرادکی کمی نہیں جو پاکستان کو”سیکورٹی رسک اسٹیٹ“ قرارد ے کر اس حقیقت سے انکار کرتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان میں مضبوط پیشہ ورانہ تربیت کی حامل فوج کا مقصد کسی ہمسایہ ملک کے خلاف جارحیت یا تو سیع پسندانہ عزائم نہیں بلکہ ملک کا موثر دفاع ہے۔ 12 اکتوبر 1947ءکو ریاست جموں و کشمیرپر بھارتی قبضے کی کوشش ہو، اپریل 1965ءمیں بھارتی ریاست گجرات سے ملحقہ پاکستان کے علاقے رن آف کچھ پر بھارتی فوج کے آرمڈ ڈویژن کا قبضہ یا 6ستمبر 1965ءکی صبح سورج نکلنے سے پہلے لاہور پر قبضہ کیلئے بھارتی فوج کی چڑھائی ہو۔ یہ تینوں واقعات پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارت کے ان جارحانہ عزائم کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پاک فوج نے وطن کا جس بھرپور انداز سے دفاع کیااس بارے میں بھارت کے اپنے دفاعی تجزیہ کارمتفق ہیں کہ پانچ گنا زیادہ افرادی قوت اور اسلحہ رکھنے والی بھارتی فوج کو پاک فوج سے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1948ءمیں پاک فوج نے ایک تہائی کشمیر بھارتی فوج کے قبضہ سے چھڑا لیا۔ اپریل 1965ءمیں بھارتی فوج نے رن آف کچھ کی حفاظت پر تعینات پاکستان رینجرز کے 25جوانوں کو شہید کرنے کے بعد وہاں قبضہ کیا تو پاک فوج نے بھارتی فوج کے آرمڈ ڈویڑن کو برباد کرتے ہوئے 910 مربع کلومیٹر کا علاقہ بھارتی فوج کے قبضہ سے چھڑا لیا۔ لیکن افسوس پاکستان کو سیکورٹی رسک اسٹیٹ بنانے کا پاک فوج پر الزام لگانے والے ہمارے دانشوروں نے آج تک رن آف کچھ کی پاک بھارت جنگ سے پاکستانی عوام کو آگاہ کرنے کی ضرور ت ہی محسوس نہیں کی۔ 
اسی طرح 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں بھی بھارتی فوج اپنے مقاصد میں بری طرح ناکام رہی۔ اپنی اس بدترین ناکامی کے بعد ہی بھارت نے پاکستان کی سلامتی پروار کیلئے محرومیوں اور وسائل پر پاک فوج کے قبضے کے حوالے سے بیانیے بناکر ملک کے مختلف علاقوں میں قوم پرستی کے ذریعے بدامنی کو ہوادی اور اپنے اسی سازشی بیانیے کی بدولت عالمی سطح پر ترتیب دی گئی سازش کے نتیجے میں پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد پاکستان کی مغربی سرحد کے راستے بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں شورش کو پروان چڑھایا گیا۔ لیکن بھارت خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ تاہم 2001ءمیں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے افغانستان پر قبضہ نے بھارت کو پاکستان کیخلاف خون ریز دہشت گردی کی شکل میں اپنے ناپاک عزائم کو آگے بڑھانے کا موقع فراہم کردیا۔ جس میں بلوچستان اس کا بنیادی ہدف تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ کاشغر سے گوادر تک پاک چین تجارتی راہداری پروجیکٹ اور گوادر کے ساحلوں پربندر گاہ کی تعمیر کا آغاز تھا۔ جسے امریکہ نے خطے میں اپنے مفادات کیلئے خطرہ قراردیا۔ بھات نے بلوچستان میں وہاں کے وسائل پر پاک فوج کے قبضہ اور بلوچ عوام کے احساس محرومی کا بیانیہ تیار کر کے بلوچستان میں علیحدگی پسند گروہ کھڑے کیے اور انہیں افغانستان میں دہشت گردی کی ترتیب دینے کے بعد بلوچستان میں قتل و غارت گری ، خود کش دھماکے شروع کرائے گئے۔جس میں جدید امریکی خودکار اسلحہ حاصل ہونے کے بعد دہشت گردوں نے معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیلناشروع کردی ہے۔ 
کلبھوشن یادیو جیسے بھارتی سرکاری دہشت گرد کی گرفتاری کے بعد یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ بلوچستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان مخالف حکمت عملی کے مذموم مقاصد سونپے گئے ہیں تاکہ وہ پرتشدد سرگرمیوں کے ذریعے افراتفری کو ہوا دیں۔ ان گروہوں کا مقصد اس بنیادی ڈھانچے کو کمزور کرنا ہے جو ترقی کیلئے ضروری ہے۔ جس میں سی پی سہرفہرست ہے۔ حالیہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے کثیر الجہتی مقاصد ہیں۔ ایک طرف تو یہ انتظامی امور اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں تو دوسری طرف مقامی آبادی کے ذہنوں پر منفی اثرات بھی مرتب کرتے ہیں جس سے عوام میں مایوسی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور انکا اداروں سے اعتماد اٹھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس مایوسی کا شکار لوگ بھارت کی تیار کردہ دہشت گرد تنظیموں کی طرف راغب ہوتے ہیں اور یوں یہ تنظیمیں اپنی افرادی قوت میں اضافہ کرتی ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے)اور مختلف دیگر بلوچ ذیلی قوم پرست گروپوں کو مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دہشت گرد گروہ بلوچستان میں جاری منصوبوں میں مصروف کارکنوں کو ڈرانے یا ان پر براہ راست حملہ کرنے، تعمیراتی کیمپوں پر حملے اور ترقیاتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی مشینری اور آلات کی تباہی یا تخریب کاری جیسے کام سرانجام دیتے ہیں۔ ان کارروائیوں کو یہ عناصر بلوچستان کی محرومی اور استحصال کے رد عمل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ترقیاتی کاموں کو نقصان پہنچا کران دہشت گرد عناصر کا ہدف اپنے مقصد کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرانا اور اس کی آڑ میں علیحدگی کے مطالبات کی ترویج ہوتا ہے۔ اس طرح کے ہتھکنڈے نہ صرف خطے میں ضروری بنیادی انتظامی ڈھانچے کی تباہی اور اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں بلکہ صوبے میں عدم استحکام اور عدم تحفظ کی فضا میں اضافے کا سبب بھی بنتے ہیں۔جس سے مقامی آبادی کو درپیش سماجی و اقتصادی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔
ایسے حالات جن میں سیکورٹی رسک نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے، کے نتیجے میں ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد نہ صرف مشکل ہوجاتا ہے بلکہ اس عمل میں شامل مختلف اسٹیک ہولڈرز پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے منصوبوں کی لاگت اصل تخمینوں سے تین سے چار گنا بڑھ جاتی ہے۔ پراجیکٹ کی لاگت میں یہ افراط زر نہ صرف اس منصوبے کے بجٹ پر دباو¿ ڈالتا ہے بلکہ مالیاتی منصوبہ بندی اور وسائل کے انتظام کو بھی پیچیدہ بناتا ہے۔ مزید برآں سیکورٹی کے بڑھتے ہوئے خدشات غیر ملکی سرمایہ کاروں اور بین الاقوامی شراکت داروں کے لیے ایک رکاوٹ بن جاتے ہیں جنہوں نے بصورت دیگر متاثرہ علاقے میں کاروباری منصوبوں میں شامل ہونے پر دلچسپی ظاہر کی ہوتی ہے۔ جس کی بدولت مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے ظاہر کی جانے والی ہچکچاہٹ کے نتیجے میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) میں کمی واقع ہونا لازمی امر ہے۔ ملک دشمن گروہ دہشت گردی کی کارروائیوں کو اخلاقی تحفظ دینے کیلئے احساس محرومی اور بلوچستان کے استحصال کے تصور کے ارد گرد بیانیہ ب±نتے ہیں۔ حالانکہ جو لوگ اس بیانیے کے ساتھ جڑے ہیں وہ بھی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ علیحدگی پسند نقطعہ نظر بنیادی طور پر اپنے اندر وہ تمام سقم رکھتا ہے جس سے اس کی کامیابی قطعا ًممکن نہیں اور یہ وسیع پیمانے پر حمایت حاصل کرنے سے بھی قاصر ہے۔ کیونکہ یہ مسائل کے اصل حل سے مطابقت نہیں رکھتا اور ایک محدود حمایت کا حامل ہے جو زمینی حالات سے منسلک نہیں۔
بلوچستان، کثیر جہتی سیاسی نمائندگی کی ترجمانی کرتا ہے جہاں مختلف قومی سیاسی جماعتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان جماعتوں میں سے ہر ایک کا صوبے کے اندراثر و رسوخ قائم ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بلوچستان قومی سیاسی عمل کا ہمیشہ سے اہم حصہ رہا ہے۔ان جماعتوں نے بلوچستان کی مختلف قومی سیاسی جماعتوں سے الحاق کر کے نہ صرف صوبائی طرز حکمرانی میں حصہ لیا ہے بلکہ بلوچستان کی سیاسی شخصیات قومی سطح پر بھی اہم عہدوں پر فائز رہی ہیں، جن میں (وزیراعظم )میر ظفر اللہ خان جمالی) چیئرمین سینیٹ) صادق سنجرانی اور( ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی )قاسم سوری جیسے اعلی عہدے شامل ہیں۔اسی طرح بلوچستان کی سیاسی قوتیں ملک کے مجموعی سیاسی ماحول میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اعلی ترین سیاسی عہدوں میں بلوچستان کی سیاسی قیادت کی نمائندگی کے علاوہ پاک فوج کے17 کمانڈرز میں سے2 کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ ان میں جنرل محمد موسی اور جنرل عبدالوحید کاکڑ آرمی چیف کے طور پہ خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔بہرحال اب ہمار دشمن بھارت سرحدوں پر براہ راست حملہ آور ہونے کی بجائے ملک کے اندر احساس ِ محرومی اور قوم پرستی جیسے مذموم بیانیوں کے ذریعے حملہ آور ہے تو اس کا اس سے دفاع کا فریضہ بھی پاک فوج ادا کر رہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن