میدان جنگ میں ہرطرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ ان لاشوں میں سے شہداءکی تلاش بظاہرمشکل کام تھا۔سیز فائر کے فوراً بعد افواج پاکستان کے ذمہ داران آفیسر جن میں لیفٹیننٹ آصف پیش پیش تھے، اپنے یونٹ کے شہداءکی لاشوں کو ڈھونڈ رہے تھے۔ لیفٹیننٹ آصف نے جومنظر دیکھا وہ ناقابل فراموش تھا، اس منظرکو وہ زندگی بھرفراموش نہیں کرسکے۔انہوںنے جوکچھ دیکھا اور بیان کیا وہ ہرمسلمان اور پاکستانی کے ایمان کو پختہ کرنے کےلئے کافی ہے۔
لیفٹیننٹ آصف جو بعد میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے سے ریٹائرہوئے کے مطابق جب وہ شہداءکی لاشوں کی تلاش کےلئے نکلے تومیدان جنگ میں اس قدر بدبوپھیلی ہوئی تھی کہ سانس لینا دشوار تھا۔منہ پر جراثیم کش نقاب پہن کر اور ڈھاٹے باندھ کر وہ اسٹریچر ز کو ساتھ لے کر شہیدوں کی تلاش میں نکلے۔ لیفٹیننٹ آصف اور ان کے ساتھیوں نے دیکھاکہ پاکستانی سپاہیوں کی لاشیں اور دشمن کے سپاہیوں کی لاشیں ایک ہی میدان میں پڑی ہوئی تھیں۔ دشمن کے سپاہیوں کی لاشیں پھول کر کئی گنا بڑھ گئی تھیں۔ ان سے سخت بدبو بھی آرہی تھی لیکن انہی لاشوں کے درمیان3ایف ایف کے چار شہداءکی لاشیں پڑی تھیں۔ وہ نہ خراب ہوئیں تھیں جو جہاں جیسے گرا تھا ویسے ہی پڑاتھا۔ جہاں گولی لگی تھی یا زخم آیا تھا وہاں خون رس رس کر جم گیاتھا لیکن جسم ایسے تھے جیسے ابھی ابھی روح پرواز ہوئی ہو حالانکہ انہیں وہاں پڑے ایک ہفتے سے زائد عرصہ گزرچکاتھا۔ لیفٹیننٹ آصف اس منظرکو دیکھ کراللہ کی کبریائی، اس کی تقدیس، اس کی حمدوثناءکئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ حق وباطل کی تمیز اور شناخت تھی۔ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں اپنے بندوں کو ایسے مناظر دکھاتاہے جس سے ان کایقین پختہ ہوجائے۔ ایک جیسی زمین، ایک جیسی فضا، ایک جیسی آب وہوا، سورج کی تمازت اور رات کی ٹھنڈک بھی یکساں تھی لیکن دشمن کے فوجیوں کے چہرے سیاہ ہوکر مسخ ہوچکے تھے، انکی لاشوں میں کیڑے پڑچکے تھے لیکن شہدائے افواج پاکستان کے شہیدوں کی لاشیں ترو تازہ تھیں۔ وہ کیا چیز تھی جس نے ان لاشوں میں یہ امتیاز پیدا کیا جبکہ بظاہر سب انسان تھے۔ اس سوال کا جواب غور وفکر کے بعد ایمان اوریقین کی کیفیت میں ہی مل سکتاہے۔
اللہ پرایمان رکھنے والوں،اس کی وحدانیت پریقین رکھنے والوں، اس کے حبیب پاک سے محبت اور عقیدت رکھنے والوں اورمردار کھانے،مردار پرپلنے والوں میں بڑا فرق ہوتاہے یہ کرگس اور شاہین کا فرق ہے، حق اور باطل کا فرق ہے۔پاکستان27رمضان المبارک کو وجود میں آیا جولیلة القدرکی رات ہے، نزول قرآن کی تکمیل کی رات ہے۔یہ اللہ کی طرف سے غیبی اشارہ تھاکہ یہ ملک، یہ سرزمین مسلمانوںکےلئے اللہ تعالیٰ کا تحفہ ہے۔ قدرت کا انعام ہے، خداکی بہت بڑی نعمت ہے۔ جس نے خدا کے اس تحفے،نعمت اور انعام کی قدر کی اس پر اللہ کی رحمت اور سکینت نازل ہوگی۔ خدا کا کرم، اس کی مہربانی اور عنایات ہونگی۔ جس نے اللہ کی اس نعمت، اس کے تحفے اور اس کے انعام کی قدر نہ کی۔ اسے تباہ کرنے، اس کی پاک سرزمین کو روندنے، اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی وہ اللہ کے غضب سے بچ نہیں سکے گا۔ پھر اللہ کی نعمت کی قدرکرنے والے پاکستانی اورمسلمان جب اتحاد اوریکجہتی کی دولت سے مالامال ہے اور فرشتے گردوںسے ان کی مدد کےلئے خود قطار اندر قطار اتر آتے ہیں۔
ترجمہ: اے ایمان والو!جب کفار کی کسی جماعت سے تمہارامقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہوسکے اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا(ورنہ) تم بزدل ہوجاﺅگے صبر سے کام لو بے شک اللہ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔
1965ءمیں جب بھارت نے اپنی طاقت کے نشے میں مخمور ہوکر پاکستان کی جارحیت کانشانہ بنایا تو قوم اور افواج پاکستان نے اس کا بھرپور جواب دیا۔ اس قوم کا ہرفرد اور افواج پاکستان کا ہرایک سپاہی اپنی اپنی جگہ آہنی دیوار بن گیا۔ ہم نے1965ءکی جنگ میں شامل افواج پاکستان کے دوسپوتوںسے بات چیت کی اور ان سے جنگ ستمبرکا احوال جانا۔
ایئر وائس مارشل امجدحسین نے1954ءمیں ایئرفورس جوائن کی۔1965ءکی جنگ کے دوران وہ سرگودھامیں تعینات تھے۔
6ستمبرکو وہ Saber Jet F-86ر سیکنڈلیفٹیننٹ آفتاب کے ساتھ فلائی کررہے تھے کہ راہوالی کے قریب دشمن سے مڈبھیڑہوئی۔ انہوں نے ریلوے اسٹیشن پر اٹیک کیا۔ انہوں نے جیسے ہی راکٹ فائرکیا توہمارے شاہین فلائیٹ لیفٹیننٹ امجدحسین اور لیفٹیننٹ آفتاب نے انہیں نشانہ بناکرایک جہاز گرادیا، باقی بھاگ گئے۔
6ستمبرکی شام کوفلائٹ لیفٹیننٹ امجدحسین ڈیوٹی کررہے تھے کہ راڈارکے ذریعے دشمن کے 6 ایئر کرافٹ نظرآگئے۔ وہ سرگودھا کی طرف جارہے تھے، فلائٹ لیفٹیننٹ امجد حسین نے اپنا جہاز Downکرکے انہیں نشانہ بنایا تو ایک جہاز گرگیا باقی بھاگ نکلے۔ فلائٹ لیفٹیننٹ امجدحسین نے تیزی کے ساتھ اس کا پیچھاکیا اور دوسرا جہاز بھی مارگرایا۔ اب فلائٹ لیفٹیننٹ امجدحسین کی حفاظت اسی میں تھی کہ وہ تیز ترحرکت میں رہتے اور تیزی سے اٹیک کرتے تاکہ پکڑے نہ جاسکتے۔ دشمن کا جہاز تباہ ہواتویہ اس کے اتنے قریب تھے کہ اس کے ٹکڑے ان کے جہاز سے اس طرح ٹکرائے کہ ان کے جہازکا انجن جام ہوگیا۔ انہوںنے اپنی ذہانت سے فوری ایکشن لیا اور خود کوEjectکیا یوںصبح پانچ بجے شروع ہونے والایہ اٹیک پانچ بج کرپینتالیس منٹ پر ختم ہوا۔ یہ واقعہ سرگودھاکے قریب پنڈی بھٹیاں میں ہوا خداکی قدرت کہ اللہ کے اس شاہین کو خراش تک نہ آئی۔ فلائٹ لیفٹیننٹ امجدحسین نے پیچھے اطلاع دے دی اور اس کے بعد ایم ایم عالم نے آدھے گھنٹے کے بعد شوٹ ڈاﺅن کیا۔
فلائٹ لیفٹیننٹ امجدحسین کو1965ءمیں ستارہ جرات ملا۔ بلاشبہ جب تک ہمارے وطن میں ایئروائس مارشل امجدحسین جیسے سپوت جنم لیتے رہینگے ہمارے وطن کی طرف اٹھنے والی میلی آنکھ دوسرے دن کا سورج نہ دیکھ پائے گی۔
پرواز ہے دونوںکی اسی ایک ہی فضا میں
Sep 06, 2024