پاک فوج کے شہیدوں، غازیوں کو سلام!

معزز قارئین ! اب کیا کِیا جائے کہ ”تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ ہماری کبھی دوستی نہیں ہوئی اور نہ کبھی ہو سکتی ہے“۔ آج ہم پھر 6 ستمبر 1965ءکو یاد کر رہے ہیں جب (پاک افواج کی جمعیت کے زور سے) ہمارے گھوڑے (جدید ترین اسلحہ) سے تیار تھے۔ جب خدا کے دشمنوں اور ہمارے دشمنوں نے (ان دشمنوں کی شہ پر) جنہیں ہم نہیں جانتے تھے لیکن خدا جانتا تھا۔ وطن عزیز کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کِیا تو انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ ہمارے غازیوں اور شہیدوں نے مسلمانوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی اور آج اندرون اور بیرونِ پاکستان فرزندان و دخترانِ پاکستان ، پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ، مِل کر اس تاریخ پر فخر کرنے کا دِن منا کر اپنے شہیدوں اور غازیوں کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔
جنگ ِ ستمبر میں صِرف پاکستان کی مسلح افواج ہی نہیں بلکہ پوری قوم جنگ جو بن گئی تھی۔ پاکستان کے سارے شہروں کے لوگ اس جنگ میں شریک تھے۔ لاہور کی فضاءمیں تو پاک فضائیہ اور حملہ اور بھارتی فضائیہ میں زور دار لڑائی ہوئی جِس میں پاکستان کے شیر دِل ہوا بازوں نے بھارت کے دو "Hunter" طیاروں کو مار گرایا۔ ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے موضع چونڈہ میں ٹینکوں کی بہت بڑی جنگ ہوئی۔ عالمی میڈیا کے مطابق چونڈہ میں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا دِیا۔ بھارتی فضائیہ نے میرے سرگودھا کی شہری آبادی کو نشانہ بنایا۔ (خواتین سمیت) 26 افراد شہید اور بہت سے زخمی ہوئے۔ اسکے بعد سرگودھا میں تعینات پاک فضائیہ کے ائیر کموڈور (مشرقی پاکستان کے) ایم۔ ایم۔ عالم (محمد محمود عالم) نے 30 سکینڈ میں چار بھارتی طیاروں کو مار گرایا اور تین کو نقصان پہنچایا۔ صدر ایوب خان کی طرف سے لاہور، سیالکوٹ اور سرگودھا کو ”پرچمِ ہلالِ استقلال“ سے نوازا گیا۔ 
معزز قارئین!۔ ان دِنوں شاعر مجسٹریٹ جناب جاوید احمد قریشی ضلع سرگودھا میں Defence" "Civil کے انچارج تھے۔ انہوں نے مجھے اور میرے دو (مرحوم) شاعر‘ صحافی ساتھیوں میر عبدالرشید اشک اور مولانا اخگر سرحدی کو جناب ایم۔ ایم۔عالم کی ایک جھلک دِکھا کر کمال کردِیا تھا۔ مَیں نے جنگ ِ ستمبر کے غازیوں اور شہیدوں کی شان میں کئی مضامین لِکھے اور دو ملی ترانے بھی۔ ایک ترانہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور دوسرا ”محکمہ تعلقات عامہ مغربی پاکستان“ کی شائع کردہ ملی نغموں کی ضخیم کتاب میں شائع ہوا۔ مِیر عبدالرشید اشک اور جناب جاوید احمد قریشی کے ملّی ترانے بھی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوئے۔ میرے دوست جاوید احمد قریشی صاحب چیف سیکرٹری پنجاب کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے۔ ان کا انتقال 28 اپریل 2014ءکو ہوا۔ ان کی ایک نظم کے دو شعر نذر قارئین ہیں…
ہوئے غروب جو ہم آجق کل طلوع ہونگے!
ہمارے نام کے چرچے، چہار سو ہوں گے!
قسم ہمیں‘ تری محرومیوں کی، خاکِ وطن!
بہم تجھے، وہی سامانِ رنگ و بو، ہوں گے!
معزز قارئین! سرگودھا کے میرے ایک دوست میجر (ر) رشید وڑائچ (حزب اللہ کے سربراہ) کئی سال سے لاہور سیٹل تھے۔ میری ان سے باقاعدہ ملاقات ہوتی تھی۔ ایک دِن مَیں انکے گھر موجود تھا جب اچانک ائیر کموڈور ایم۔ ایم۔ عالم صاحب وہاں تشریف لائے۔ وڑائچ صاحب ان سے بغل گیر ہوئے تو جناب ایم۔ ایم۔ عالم صاحب نے مجھے بھی گلے لگا لیا۔ مَیں 45-40 منٹ کی ان سے ملاقات میں نہال ہوگیا۔ 
”فرمانِ قائداعظم! “ 
11 اکتوبر 1947ءکو افواجِ پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے حضرتِ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ”اگر ہم جنگ میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں فوق البشر محنت اور جدوجہد کرنا ہوگی۔ یہ ذاتی ترقی، عہدے اور مرتبے حاصل کرنے کا وقت نہیں ہے۔ یہ وقت ہے، تعمیری کوشش کا، بے لوث جدوجہد کا اور مستقل مزاجی سے فرض شناسی کا!“۔ 
علاّمہ اقبال نے تو بہت پہلے ہی اللہ تعالیٰ سے کسی شہید کی گفتگو کو اِس طرح ریکارڈ کِیا تھا کہ … 
میرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کِیا ہے پیدا!
صِلہ شہید کیا ہے؟ تب و تاب ِ جاودانہ!
”میرے دو ملّی ترانے ! “ 
معزز قارئین! مَیں نے ستمبر 1965ءکی ”پاک بھارت جنگ“ کے دوران دو مِلّی نغمے لکھے تھے ایک نغمہ تو ہر روز ”ریڈیو پاکستان“ سے نشر ہو رہا تھا، پھر جنوری 1999ءمیں(1992ءسے میرے دوست) سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سیّد انور محمود نے پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے کئی شاعروں کے ملّی ترانوں کو از سر نو ریکارڈ کرایا تو اس میں میرا ایک ملّی ترانہ بھی شامل تھا جسے پٹیالہ گھرانہ کے نامور گلوکار حامد علی خان صاحب نے گایا۔
”دورِ حاضر کے سیلاب زدگان!“
معزز قارئین! چیف آف آرمی سٹاف سیّد جنرل عاصم منیر اور افواجِ پاکستان کے دوسرے اکابرین اور اراکین نے سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے ایسا بے پایاں جذبہ اختیار کِیا ہے کہ اس سے چاروں طرف سے انسانیت کے پھول کھلنے لگے ہیں۔ پاک فوج کے شہیدوں اور غازیوں کو سلام پیش کرنے کے لئے ایک بار پھر میرے اِس ترانے کو ملاحظہ فرمائیں۔
” اے مادرِ وطن ترے پیاروں کی خیر ہو! 
زہرہ نگاروں سینہ فگاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن، ترے پیاروں کی خیر ہو!
یوں حسنِ لازوال سے، رَوشن ہیں بستیاں!
جیسے کہ آسمان سے، آتری ہو کہکشاں!
تیرے فلک کے، چاند ستاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن، ترے پیاروں کی خیر ہو!
مٹی کا تری رنگ، زَر و سیم کی طرح!
دریا رَواں ہیں،کوثر و تسنیم کی طرح!
جنت نشان، مست نظاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن، ترے پیاروں کی خیر ہو!
دنیا میں بے مثال ہیں، ارباب فن ترے!
ہر بار فتح یاب ہوئے، صف شکن ترے!
شاہ راہ حق کے، شاہ سواروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن، ترے پیاروں کی خیر ہو!
پھیلے ہوئے ہیں، ہر سو وفاوں کے سِلسلے!
ماوں کی پر خلوص دعاوں کے سِلسلے!
مضبوط، پائیدار، سہاروں کی خیر ہو!
اے مادرِ وطن، ترے پیاروں کی خیر ہو!‘ ‘

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...