اندرونی و بیرونی دشمنوں کی سازشوں میں گِھرے وطنِ عزیز کا آج 59 واں یومِ دفاع ہے۔ قوم ہر سال ملی جوش و جذبے اور ملک کی بقاءو سلامتی کی خصوصی دعاو¿ں کے ساتھ یومِ دفاع مناتی ہے اور اس سلسلے میں ہونے والی سرکاری تقریبات میں مسلح افواج کی پریڈ کے ساتھ ساتھ جدید اسلحہ اور دوسرے جنگی سازوسامان کی نمائش کرکے دشمن پر اپنی عسکری برتری کی دھاک بٹھائی جاتی ہے۔ آج 6 ستمبر کو قوم روایتی جوش و جذبے کے علاوہ ملک کی سلامتی کے لیے فکرمندی کے گہرے احساس کے ساتھ یومِ دفاع منا رہی ہے اور مختلف سرکاری اور نجی ادارے آج اس حوالے سے تقریبات کا انعقاد کر رہے ہیں۔ تاہم ملک کو درپیش سنجیدہ اقتصادی و سیاسی مسائل نے عوام کو ایک عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے جو ان کے وطنِ عزیز سے بے پایاں محبت کے جذبے کو بھی گہنا رہے ہیں۔ روایتی طور پر آج دن کا آغاز مساجد میں نماز فجر کے بعد شہدائے جنگ ستمبر کے لیے قرآن خوانی اور ملک و قوم کی سلامتی و استحکام کی خصوصی دعاو¿ں سے ہوگا جبکہ دفاع وطن کے لیے جانیں نچھاور کرنے والے پاک فوج کے جوانوں اور افسران کی قبور اور یادگاروں پر پھول چڑھانے کی تقاریب کا انعقاد ہوگا جن میں شہداءکے لیے فاتحہ خوانی کی جائے گی۔ اس حوالے سے آج سول و فوجی حکام، سیاسی قائدین اور عوام شہداءکی یادگار باٹاپور اور بھسین گاو¿ں میں حاضری دیں گے جہاں شہداءکی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھائی جائیں گی۔ آج آزادی کی تڑپ سے معمور کشمیری عوام بھی مقبوضہ وادی میں یومِ دفاع منا کر پاکستان اور افواجِ پاکستان سے محبت اور جذباتی وابستگی کا کھلا اظہار اس انداز میں کر رہے ہیں کہ انہوں نے پوری مقبوضہ وادی کو پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل سیّد عاصم منیر کے قدِآدم پورٹریٹس سے سجا دیا ہے اور پاکستان کے قومی پرچم لہرا دیئے ہیں جو کشمیر کو بزور بھارت میں ضم کرنے کی گھناو¿نی منصوبہ بندی رکھنے والی مودی سرکار کے ان عزائم کو خاک میں ملانے کا ٹھوس جواب ہے۔ کشمیری عوام کی جانب سے لگائے گئے پوسٹروں، بینروں میں یہ پرجوش نعرے بھی درج کیئے گئے ہیں کہ پاکستان اتنا طاقتور ہے کہ بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ کشمیری عوام بھارت کی اقلیت دشمن پالیسیوں کے خلاف مظاہرے بھی کر رہے ہیں اور اقوام متحدہ سے تقاضہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کے لیئے عملی پیش رفت کرے۔
آج یومِ دفاع کی اہمیت اہلِ پاکستان کے لیے اس حوالے سے بھی اجاگر ہوئی ہے کہ ہمارے شاطر و مکار دشمن بھارت کی مودی سرکار نے پانچ سال قبل 5 اگست 2019ءکو بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35اے کو ختم کرکے اپنے ناجائز زیرتسلط کشمیر کو مستقل طور پر بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنایا جس کے بعد اس نے پاکستان کی سلامتی کو بھی کھلا چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ یہ صورتحال پوری قوم کے اپنی جری و بہادر افواج کے ساتھ سیسہ پلائی دیواربن کر کھڑے ہونے کی متقاضی ہے اور مسلح افواج نے مکمل طور پر اپنی توجہ دفاع وطن کی ذمہ داریوں پر مرکوز رکھنی ہے جس کے لیے افواج پاکستان میں یکسوئی کی ضرورت ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھی بین الاقوامی برادری کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے کیونکہ بھارت گذشتہ سال اپنے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں جی ٹونٹی اجلاس کرا چکا ہے اور اب وہاں مس ورلڈ مقابلے کا انعقاد بھی کرانے جارہا ہے۔ ایسی سرگرمیوں کے ذریعے بھارت دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ مقبوضہ وادی متنازعہ علاقہ نہیں بلکہ اس کا حصہ ہے۔ یہ صورتحال اقوامِ متحدہ سمیت ہر اس عالمی ادارے کے لیے چیلنج ہے جو یہ تسلیم کرتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اسے صرف ایک صورت میں ہی غیر متنازعہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے اور پھر ان کی طرف سے جو فیصلہ ہو اسے مان لیا جائے۔
جہاں تک دفاعِ وطن کی بات ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلح افواج میں آرمی چیف سے سپاہی تک ہر افسر و اہلکار حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے اور دفاع وطن کا ہر تقاضا نبھانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ آج ہمارا مکار دشمن بھارت جن گھناو¿نی سازشوں کے تحت پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے اس کے پیش نظر تو قوم کی جانب سے عساکر پاکستان کے حوصلے بڑھائے رکھنے کی ضرورت ہے۔ چہ جائیکہ اس قومی ادارے کے اتحاد و یکجہتی کے حوالے سے قوم کے ذہنوں میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ قوم کا تو ہر فرد، ہر ادارہ اور ہر شعبہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے اور اقوام عالم میں اس کا تشخص خراب کرنے کی بھارتی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لا رہا ہے جن میں قومی کھیلوں کا شعبہ بھی شامل ہے۔ گذشتہ ماہ اولمپک گیمز میں پاکستانی سپوت ارشد ندیم نے جیولن تھرو کے فائنل میں بھارتی کھلاڑی سمیت تمام کھلاڑیوں کو مات دے کر اور نیا ریکارڈ قائم کرکے ملک و ملت کی سربلندی کے قومی جذبے کو ہی اجاگر کیا ہے۔
یوم دفاع کے موقع پر قوم کی جانب سے بھارت کو یہ ٹھوس پیغام ہے کہ پاکستان کی سلامتی کی جانب اٹھنے والی اس کی میلی آنکھ پھوڑ دی جائے گی۔ قوم کا یہی جذبہ 65ءکی جنگ میں عساکر پاکستان کے شامل حال تھا جو بھارت کی جانب سے ہم پر مسلط کی گئی تھی۔ اس جنگ میں بے شک افواج پاکستان نے ہر محاذ پر دفاع وطن کے تقاضے نبھاتے ہوئے دشمن کے دانت کھٹے کیے اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرتے ہوئے مکار دشمن کی افواج کو زمینی، فضائی اور بحری محاذوں پر منہ توڑ جواب دیا اور قربانیوں کی نئی اور لازوال داستانیں رقم کیں جبکہ پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت و پاسبانی کے تقاضے نبھاتی رہی۔ اس جنگ نے ہی قوم میں ’پاک فوج کو سلام‘ کا بے پایاں جذبہ پیدا کیا تھا جس کے نتیجہ میں ملک کی مسلح افواج نے اپنے سے تین گنا زیادہ دفاعی صلاحیتوں کے حامل مکار دشمن بھارت کی فوجوں کو پچھاڑ کر انھیں پسپائی پر مجبور کیا اور بھارتی لیڈران اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی دہائی دیتے نظر آئے۔
اہل وطن دفاع وطن کے اس جذبے کو تازہ رکھنے اور نئے عزم و تدبر کی صف بندی کے لیے ہر سال 6 ستمبر کو یوم دفاع کے طور پر مناتے ہیں جو حب الوطنی کا تقاضا بھی ہے۔اس برس یوم دفاع کی اہمیت اس لیے زیادہ ہو گئی ہے کہ آج بھارت نے عملاً جنگ کی فضا پیدا کر رکھی ہے جو ہماری سلامتی کے بھی درپے ہے اور ہمیں دنیا میں تنہاکرنے کی سازشوں میں بھی مصروف ہے مگر اس پر ایسا خدا کا غضب ٹوٹا ہے کہ وہ ہزیمتیں اٹھاتا اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔ افغانستان سے امریکا کے انخلاءکے ساتھ ہی بھارت کو بھی رسوا ہوکرافغانستان سے دم دبا کر بھاگنا پڑا۔ اس کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ڈوب گئی اور پاکستان میں مداخلت کے راستے بند ہوگئے۔ وہ اب پاکستان کے خلاف سازشوں کے نئے جال بن رہا ہے۔ اس صورتحال میں ہر پاکستانی کو اپنے حصے کا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے وطنِ عزیز کو مضبوط اور مستحکم بنانا چاہیے اور ان عناصر کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جو مایوسی پھیلا کر نئی نسل کو ملک سے متنفر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں اتحادی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ عوام کو بالخصوص مہنگائی میں فوری ریلیف مہیا کرے کیونکہ ملک کی غالب اکثریت اقتصادی مسائل میں الجھ کر پریشانیوں کا شکار رہے گی تو اس سے یقینا اس کا ریاست اور اس کے اداروں پر اعتماد متزلزل ہوگا جیسا کہ بجلی کے بے جا اور ناروا بلوں اور نجی پاور کمپنیﺅں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی بنیاد پر آج عوام کے دلوں میں لاوا ابل رہا ہے اور وہ حکمرانوں کے خلاف تہیہءطوفان کئے بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کو اس وقت جن اقتصادی اور سیاسی مسائل کا سامنا ہے انھیں حل کرنے کے لیے فوری اور ٹھوس حکمتِ عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔
ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہمارے مکار دشمن بھارت نے 65ءکی جنگ میں پاک فوج کے ہاتھوں اٹھائی جانے والی ہزیمت کا 71ءکی جنگ میں بدلہ چکانے کی سازش کی اور سانحہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں اس ارض وطن کو دولخت کردیا۔ اس وقت بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے یہ بڑ ماری تھی کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے جبکہ ہندو جنونیت نے عملاً دو قومی نظریے کو مزید اجاگر کردیا اور بنگلہ دیش میں نوجوانوں کے برپا کئے حالیہ انقلاب نے تو اب دو قومی نظریئے پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ ہمارا شاندار ماضی بھی اس امر کا گواہ ہے کہ بھارت نے باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی بھی ختم کرنے کی بدنیتی کے تحت ایٹمی صلاحیت حاصل کی تو پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کشمیر کی آزادی کے لیے بھارت سے ہزار سال تک جنگ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کے لیے ایٹمی قوت کے حصول کا عزم بھی باندھ لیا جس کے لیے بعد میں آنے والے تمام حکمرانوں نے ملکی دفاع کے تقاضوں کے مطابق اپنا اپنا حصہ ڈالا اور جب مئی 1998ءمیں بھارت نے دوسری بار ایٹمی دھماکے کیے تو اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف نے 28 مئی 1998ءکو ایٹمی بٹن دبا کر تین بھارتی دھماکوں کے جواب میں پانچ دھماکے کردیئے اور پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا جس سے دنیا کو باور کرایا گیا کہ ہم خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کا ڈٹ کا مقابلہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
ہمارے اس مکار دشمن کو اب تک پاکستان پر 65ءاور 71ءجیسی جارحیت مسلط کرنے کی تو جرا¿ت نہیں ہوئی مگر وہ دوسرے محاذوں پر پاکستان کی سلامتی کے خلاف گھناو¿نی سازشوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔ یہ بھارت ہی کی مکاری ہے جس کے تحت پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کی سازش کی جاتی ہے اور دوسری جانب دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر اسے اقوام عالم میں تنہا کرنے کی سازشی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈالنا اسی سازش کا حصہ تھا جبکہ بھارت پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈلوانے کے لیے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگاتا رہا۔ یہ سلسلہ ابھی بھی نہیں رکا اور پاکستان کے خلاف بھارت کی گھناﺅنی سازشیں اب بھی جاری ہیں اور بلوچستان میں سکیورٹی فورسز اور پنجابی آباد کاروں کو ٹارگٹ کر کے انہیں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے کی حالیہ وارداتیں اس کا ثبوت ہیں۔ اس تناظر میں دشمن کی ان سازشوں پر کڑی نظر رکھنے اور ہر موقع پر افواج پاکستان کا بھرپور ساتھ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بھارت کو ہماری جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرا¿ت نہ ہوسکے۔ اس سلسلہ میں گذشتہ سال کی 9 مئی والی خانہ ساز سازش ہم سے دشمن کے مقابل اپنی صفیں درست کرنے کی متقاضی ہے کیونکہ ملک کے بدخواہ عناصر کو افواج پاکستان کے اداروں اور تنصیبات پر یلغار کا موقع بھارتی معاونت و سرپرستی میں ہماری اندرونی کمزوریوں کے باعث ہی حاصل ہوا تھا۔ ایسے بد طینت عناصر کے لئے زیرو ٹالرنس ہی وقت کی ضرورت ہے۔ آج کا یومِ دفاع بھی ہم سے اس امر کا ہی متقاضی ہے کہ ملک سلامتی و دفاع پر کوئی مفاہمت ہو سکتی ہے نہ کسی کو ڈھیل دی جا سکتی ہے۔
59 واں یومِ دفاع اور ملک کی سلامتی کے خلاف اندرونی و بیرونی سازشیں
Sep 06, 2024