نازک پنڈلیا میں موچ آ گئی۔

قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمن نے دھواں دار خطاب کیا اور ایوان کی کھڑکیاں دروازے ہلا کر رکھ دئیے۔ ایک نکتہ ان کے خطاب کا تو وہی تھا جو ان کا اصولی موقف کہلاتا ہے یعنی پارلیمنٹ کو بااختیار کیا جائے۔ اس نکتہ یا مطالبے کو آگے بڑھانے کیلئے حکومت یا کسی اور سے نہیں، عدلیہ سے مذاکرات کی ضرورت ہے۔ اگر عدلیہ مان جائے کہ آئین ہی بالادست ہے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے لیکن فی الوقت ان کی دوسری بات زیادہ اہم ہے جو انہوں نے حالات حاضرہ کے تناظر میں کی۔ یہ کہ خیبر پختونخواہ (مولانا کوئی بل لا کر صوبے کا نام تو مختصر کروائیں ، لگتا ہے دو صوبوں کا نام اکٹھا لے لیا ) اور بلوچستان میں حکومتی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ 
ختم کیا ہو چکی ہے، بھولی بسری کہانی بن چکی ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ دونوں صوبوں میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہے جو آئین قانون اور ہر قسم کے ضابطہ اخلاق کو دفتر بے معنی سمجھ کر غرق مے ناب کر چکی ہے۔ 
ارے۔ آپ میری بات پر مسکرا پڑے۔ کے پی پر پی ٹی آئی اور بلوچستان پر پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جس کی اتحادی مسلم لیگ ن ہے تو پھر یہ ایک ہی پارٹی کی حکومت کیسے ہو گئی؟۔ دراصل آپ نے غور نہیں کیا۔ بلوچستان پر پی پی پی کی حکومت نام کی ہے، اصل میں وہاں ’’باپ‘‘ پارٹی حکمران ہے اور باپ پارٹی دراصل پی ٹی آئی کی ہم جا (ISOTOPE) ہے۔ آئسو ٹوپ کسے کہتے ہیں، دو ایسے ایٹم جن کے الیکٹران پروٹون تو ایک جتنے ہی ہوں، بس ذرا سا فرق نیوٹران کی گنتی میں ہوتا ہے، یعنی 19 ،20 کے فرق سے دونوں ایک ہی عنصر کے ایٹم، ایک ہی ماں کے جائے سمجھے جاتے ہیں۔ 
’’باپ‘‘ کی تشریح مزید یوں کی جا سکتی ہے کہ دراصل یہ ایک ایسی ’’مسمات‘‘ کی طرح ہے جو بار بار شوہر بدلتی رہتی ہے۔ جب کنواری تھی تو نام کے آگے والا محترم کا نام لگاتی تھی۔ فرض کر لیجئے، مسمات کا نام بشیراں بی بی ہے اور والد کا نام غفور۔ تو نام ہو گیا بشیراں غفور۔ بعدازاں اس نے فیض نامی شخص سے شادی کر لی تو نام ہو گیا بشیراں فیض۔ پھر فیض سے طلاق لے کر صادق سے شادی کر لی تو نام بھی بدل کر بشیراں صادق ہو گیا۔ اب شوہروں کی گنتی جتنی بھی ہو، والد تو ایک ہی رہے گا۔ بیوی کتنوں کی ہو، بیٹی ایک ہی کی رہے گی۔ تو یہ ہے بلوچستان کی باپ پارٹی جو پی ٹی آئی کی ہم جا یعنی آئسوٹوپ ہے۔ مطلب دونوں صوبوں میں ایک ہی پارٹی حکمران ہے تو حکومتی یا ریاستی رٹ دونوں صوبوں میں ایک ہی جیسی واردات کے تحت ’’لاپتہ‘‘ کر دی گئی۔ 
کے پی پر ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کا راج ہے تو بلوچستان میں بی ایل اے اور اس کے ہمراہیوں کا۔ مسئلہ دونوں صوبوں کا گھمبیر ہے اور مزید گھمبیر، گھور گھمبیر ہوتا جا رہا ہے لیکن وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ بلوچستان کی ساری شورش محض ایک ایس ایچ او کی مار ہے۔ ایسا ہے تو پھر خیبر پختونخواہ (ارے بھئی، صوبے کا نام مختصر تو کرو) کے دہشت گرد بھی ایک ہی ایس ایچ او کے مار ہوں گے۔ ارے، ہوں گے کیا، ہیں۔ تو وزیر داخلہ کے خیال میں دونوں صوبوں میں ریاستی رٹ قائم کرنے کیلئے محض دو ایس ایچ او درکار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ دو ایس ایچ او ملیں گے کہاں سے؟ ویسے بعض ستم ظریف یہ بھی کہتے ہیں کہ خود وزیر داخلہ کا تعلق بھی ’’باپ‘‘ پارٹی سے ہے۔ 
______
’’کچھ بھی ہو، جلسہ تو ہو گا‘‘۔ یہ وہ نعرہ مستانہ ہے  قومِ پی ٹی آئی کا جو جلسہ ملتوی ہونے سے ایک روز پہلے تک سننے کی عادی ہو چکی ہے۔ اب یہ نعرہ 8 ستمبر کے جلسے کیلئے لگ رہا ہے۔ لگ کیا رہا ہے، پنجابی محاورے کے مطابق ’’وجّ‘‘ رہا ہے۔ جلسے کے نعرے وجّن گے۔ 
8 ستمبر میں کتنے دن رہ گئے۔ آج چھے ہے، کل سات اور پرسوں جلسے کا دن ہے لیکن خان صاحب نے جس لحیم شحیم ہستی کو اس جلسے کا مدارالمہام بنایا تھا، اس کی ساق زرّیں پر موچ آ گئی ہے۔ ساق زرّیں یعنی سونے کی طرح چمکتی دمکتی پنڈلی۔ ایسی لحیم و شحیم پنڈلی ایسی نرم و نازک ثابت ہوئی اور وہ بھی جلسے سے محض تین روز پہلے، یہ تو کسی نے سوچا ہی نہیں تھا۔ 
وزیر اعلیٰ گنڈاپور کے ذمے تھا کہ وہ جلسے کا انتظام بھی کریں گے، جلسے کے جملہ حاضرین کو پختونخواہ سے بھی وہی لائیں گے اور انقلاب برپا کرنے کیلئے کرینوں، بلڈوزروں اور ٹریکٹر ٹرالیوں کا بندوبست بھی وہی کریں گے لیکن ہوا یہ کہ سیلابی علاقوں کا معائنہ کرتے ہوئے ان کا پائوں پھسل گیا اور پنڈلی کے جذبات مجروح ہو گئے۔ معاف کیجئے گا، جذبات نہیں، اعصاب!
-22 اگست کے جلسے کے مدارالمہام بھی یہی وزیر اعلیٰ گنڈاپور تھے۔ دروغ برگردن دریا کے کابل (کہ راوی تو پنجاب میں ہے) کہا جاتا ہے کہ انہوں نے حلقہ مہرباناں کو یقین دلایا تھا کہ وہ اعلان تو بہت کریں گے لیکن کسی جلوس کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد قدم رنجہ فرمانے سے گریز کریں گے اور جلوس کی روانگی سے تین گھنٹہ دو گھٹنہ پہلے بیمار ہو جائیں گے، یعنی پائوں وغیرہ پھسل جائے گا، پنڈلی وغیرہ میں موچ وغیرہ آ جائے گی۔ خیر، اس کی نوبت ہی نہیں آئی اور جلسہ ملتوی ہو گیا۔ دیکھئے، اب کیا ہوتا ہے۔ پردہ غیب میں بہت سی کہانیاں ہیں، کتنے ہی سنگل نظر آنے والے دراصل ڈبل ہیں۔ ڈبل کے آگے ایجنٹ وغیرہ کا لفظ آپ خود لگا لیجئے اگر دل مانے تو۔ 
______
گنڈاپور پر ایک مقدمہ بھی چل رہا ہے جس میں ان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوئے۔ مقدمہ اس بات کا ہے کہ کافی برس قبل وہ انقلاب کیلئے خودکار ہتھیار لئے اور اسلامی بلیک لیبل شہد کی بوتلوں سمیت اسلام آباد کی سڑکوں پر میراتھن ریس لگاتے پائے گئے۔ وہ دراصل انقلاب کی تلاش میں سرگرداں تھے، غلط العام لیکن یہ مشہور ہو گیا کہ وہ پولیس سے بچنے کیلئے فرار ہو رہے تھے۔ دعا ہے کہ خدا انہیں ان کی اسلامی شہد کی بوتلوں سمیت خیرو عافیت سے رکھے ورنہ انقلاب کی راہ کھوٹی ہو جائے گی۔ 
______
بنگلہ دیش کے مشیر خارجہ (عملاً وزیر خارجہ) توحید حسین نے کہا ہے کہ پاکستان سے تعلقات کو معمول پر لانے بلکہ اس کے ساتھ دوستی کرنے کی ضرورت ہے۔ دوستی ہی میں فائدہ ہے۔ آپ اخبار نویسوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ 
سخت دلآزاری والا بیان ہے۔ توحید حسین نہیں جانتے کہ پاکستان میں ، بالخصوص اس کے میڈیا میں کتنے ہی ترقی پسند، لبرل ، موم بتی نواز، روشن خیال ، حقیقی آزادی کے دیوانے ہیں جن کے سینے اس بیان سے چھلنی ہو گئے ہوں گے۔ شیخ مجیب الرحمن کو ہیرو ماننے والے یہ انصاف پسند پہلے ہی حسینہ واجد کی ارتھی اٹھنے سے سخت صدمے میں ہیں، ان کے زخموں پر مزید نمک تو نہ چھڑکیں__ پلیز!

ای پیپر دی نیشن