حکومت اور اپوزیشن کا مستعفی رکن اسمبلی اختر مینگل کو منانے کا فیصلہ

Sep 06, 2024

اسلام آباد(خبرنگار) حکومت اور اپوزیشن نے مشترکہ وفد بناکر مستعفی رکن اسمبلی اختر مینگل کو منانے کا فیصلہ کیا ہے بلوچستان سے منتخب ایم این اے اختر مینگل کے استعفیٰ کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اسپیکر کے چیمبر ملاقات ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا حکومت اور اپوزیشن کا مشترکہ وفد ناراض اختر مینگل کے پاس جائے گا اور انہیں منا کر ایوان میں واپس لائے گااس حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے چیمبر میں ہوئی ملاقات میں اپوزیشن وفد میں بیرسٹر گوہر، اسد قیصر اور عامر ڈوگر شریک تھے جب کہ  حکومت کی جانب سے رانا ثنا اللہ اور خالد مگسی بھی ملاقات میں موجود رہے ذرائع کے مطابق ملاقات میں آل پارٹیز کانفرنس بلانے سے متعلق بھی مشاورت ہوئی، مشترکہ اجلاس سے متعلق فریقین کے درمیان گفتگو ہوئی، بلوچستان کی صورتحال پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے تجاویز پر غور کیا گیاسردار اختر مینگل کے استعفے پر اپوزیشن اور حکومتی وفد میں مشاورت ہوئی، حکومت اور اپوزیشن نے مشترکہ وفد اختر مینگل کے پاس بھیجنے کی تجویز دی جو کہ اپوزیشن کی جانب سے دی گئی ذرائع نے بتایا کہ تجویز منظور ہونے کی صورت میں مشترکہ وفد بھیج کر اختر مینگل کو منا کر ایوان میں لایا جائے ۔وزیراعظم و صدر پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفی دینے والے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل دبئی روانہ ہوگئے۔ دبئی روانگی کے وقت اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے میرا استعفیٰ قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے جو میرے لیے حیرت کا باعث ہے کیونکہ میں پہلے ہی استعفیٰ دے چکا ہوں اور اس پارلیمنٹ کا حصہ رہنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ انہوں نے لکھا کہ ’وہ (سیاسی جماعتیں) سمجھتے ہیں کہ وہ مجھے منا لیں گے میری رائے بدلنے پر آمادہ کر لیں گے، اور اپنی غلطیوں کی معافی مانگیں گے۔ لیکن مجھ سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں، بلوچستان کے عوام سے معافی مانگیں، تسلیم کریں کہ آپ نے ان کے پیاروں کو چھین کر ان کے دل دکھائے گئے ہیں۔ سمی بلوچ اور ڈاکٹر مہرنگ  سے معافی مانگیں کہ آپ نے انہیں اس وقت مارا جب وہ صرف آپ سے بات کرنا چاہتے تھے۔ میں صرف اختر مینگل نہیں ہوں، میں اس عوام کا حصہ ہوں۔ جب آپ ان سے معافی مانگیں گے، تو آپ مجھ سے بھی معافی مانگ لیں گے۔ مجھے کسی سے ذاتی دشمنی نہیں ہے، لیکن میرے ضمیر نے مجھے اس فیصلے پر مجبور کیا ہے۔

مزیدخبریں