محمد عارف سہیل
مجھے ایک مرتبہ شہری دفاع کے ایک تربیتی کورس کے افسران کے ہمراہ سائیفن پر جانے کا موقع میسر آیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے بی۔ آر۔ بی نہر دریائے راوی کے نیچے سے گزر کر باٹا پور کی سمت کو بہتی ہے۔ اس مقام کا باٹا پور سے فاصلہ تقریباً 6 میل ہے۔ اس تربیتی کورس کی کمانڈ ایک فوجی آفیسر کر رہے تھے جنہوں نے خود اس معرکے میں حصہ لیا تھا۔ فوجی افسر نے اس مقام کی جنگی اہمیت پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی۔ دراصل یہی وہ مقام تھا جہاں لاہور کی قسمت کا فیصلہ ہوا تھا۔6 ستمبر 1965 کو بھارت نے اپنی فوجی طاقت کے نشے میں لاہور کی سرحد پر ایک بھاری جمعیت کے ساتھ حملہ کیا۔ اچانک حملے کی وجہ سے دشمن کی فوجیں 6 ستمبر کو بی۔ آر۔ بی نہر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں۔ لاہور سیکٹر پر باٹاپور سے لے کر سائیفن تک دن بھر گھمسان کی جنگ جاری رہی۔ فوجی افسر نے ہمیں بتایا کہ اس دن ہماری توجہ سب سے زیادہ سائیفن پر مرکوز رہی۔ چونکہ ہمارے نکتہ¿ نگاہ سے یہ بہت اہم مقام تھا اور اگر دشمن یہاں پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا تو ہمارے لئے لاہور کا دفاع بہت مشکل ہو جاتا، لہٰذا جتنی تیز رفتاری سے فوجی کمک 6 اور 7 ستمبر کو سائیفن کے مقام پر بھیجی گئی اتنی باٹاپور کی طرف نہیں بھیجی گئی۔ ہمارے فوجی ماہرین کا یہ خیال تھا کہ اگردشمن سائیفن پر قبضہ کر لیتا تو وہ نہر کا رخ راوی میں موڑ دیتا اور اس طرح یہ نہر باٹاپور اور برکی کے مقام پر خشک ہو جاتی اور ان مقامات پر دشمن اس کو آسانی سے پار کر جاتا۔
7 ستمبر 1965 کو دن بھر ”بھینی“ پل کے قریب جو کہ سائیفن سے باٹاپور کی سمت ایک میل پر واقع ہے، سخت لڑائی ہوتی رہی۔ دشمن اس اس مقام سے نہر کو پار کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتا رہا لیکن ہماری افواج نے بے مثال جرا¿ت سے دشمن کو نہر کے کنارے سے دور رکھا اور ہماری توپیں ان کی صفوں کو درہم برہم کرتی رہیں۔ ہمارے کچھ دستے ابھی نہر کے اس پار دشمن سے نبردآزما تھے۔ دشمن کے ٹینک اور توپیں دن بھر آگ برساتی رہیں۔ انہی حالات میں ہماری دسویں ڈویژن کی کمانڈ اس غور و فکر میں مصروف تھی کہ دفاع پر اکتفا کیا جائے یا نہر پار کر کے دشمن پر ایک جوابی اور بھرپور حملہ کیا جائے۔ ڈویژن کی کمانڈ کے پاس محدود وسائل اور ناکافی فوج تھی۔ اس ڈویژن کو باٹاپور اور برکی تک دشمن کو روکنا تھا۔ انتہائی سوچ بچار کا سبب اس لئے تھا کہ کہ مہم کی ناکامی کی صورت میں لاہور کا دفاع نازک ترین مسئلہ بن جاتا جیسا کہ جنرل سرفراز خان (ہلالِ جرا¿ت) نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اس وقت حوصلے ا ور ذہن کی کٹھن آزمائش تھی۔ بہرحال یہ فیصلہ کیا گیا کہ جوابی حملہ کیا جائے۔
چنانچہ 7 ستمبر 1965 کی شام کو اس عظیم اور تاریخی معرکے کا آغاز ہوا۔ دو پاکستانی بریگیڈ تقریباً 50 ٹینکوں کے ساتھ اس مہم میں شامل ہوئے۔ رات بھر توپوں نے دشمن کو مشغول رکھا اور پاکستان کے لڑاکا طیارے نہر کے دوسری طرف دشمن کے ٹینکوں اور گاڑیوں کو نشانہ بناتے رہے۔ سائیفن کے اوپر ایک ڈاک بنگلہ واقع تھا۔ وہاں کھوج لگانے والا دستہ بھیجا گیا جس سے معلوم ہوا کہ دشمن ابھی تک سائیفن پر نہیں پہنچا تھا لہٰذا پاکستان کے ٹینک توپوں اور گولوں کے شور میں سائیفن کی طرف سے نہر پار کر گئے۔ فوجی بھی اسی راستے سے گزرتے رہے اور نہر کے کنارے کنارے جا کر دور تک پھیل گئے۔ انہیں یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی کہ دشمن اس مقام پر کیوں موجود نہ تھا حالانکہ یہ ہمارا کمزور ترین مرکز تھا۔ دراصل سائیفن پر جو پل بنا ہوا تھا وہ اونچے اونچے درختوں میں چھپا ہوا تھا اور چونکہ پاکستان بننے کے بعد یہ تعمیر کیا گیا تھا اس لیے دشمن کے علم میں نہ تھا کہ اس سمت سے بھی نہر کو پار کیا جا سکتا ہے۔ دشمن اپنا سارا زور ”باٹاپور“ اور ”بھینی“ کے مقام پر صرف کرتا رہا۔
8 ستمبر 1965 کو صبح 4 بجے پاکستانی فوجوں کو اصل حملے کا حکم دیا گیا۔ سورج نکلنے تک پاکستانی فوجیں نہر کے پار ایک میل آگے بڑھ گئیں۔ فوجی افسر نے ہمیں بتایا کہ وائرلیس سیٹ پر بھارتی افسران اپنے پچھلے ہیڈکوارٹر کو یہ اطلاع دیتے سنے گئے کہ سینکڑوںں کی تعداد میں یہ ٹینک معلوم نہیں کس طرف سے اور کیونکر آرہے ہیں۔ تقریباً 7 بجے جونہی ہمارے ٹینکوں نے پیش قدمی شروع کی تھی ہمارے دو ٹینکوں کو آگ لگ گئی تھی لیکن پھر بھی ہمارے کمانڈروں نے حوصلہ نہ ہارا اور پیش قدمی جاری رکھی۔ یہ حملہ اتنی تیزی اور قوت سے کیا گیا تھا کہ سہ پہر تک ہماری فوجیں پانچ میل تک بڑھ گئی تھیں۔ بھارت کا پندرہواں ڈویژن مقابلہ کر رہا تھا۔ ہمارا ہراول دستہ بڑی برق رفتاری سے اس ڈویژن کے قلب میں گھس گیا اور اس جگہ پہنچا جہاں میجر جنرل نرنجن پرشاد جو بھارت کے اس ڈویژن کا کمانڈر تھا اور جنگ کی ہدایات دے رہا تھا اپنی جیپ چھوڑ کر بھاگ گیا۔ ہمارے نوجوانوں نے اس جیپ پر قبضہ کر لیا۔ یہی جیپ لاہور کی ایک فوجی نمائش میں رکھی گئی تھی اور اب آرمی میوزیم راولپنڈی کی زینت ہے۔
سائیفن سے بھارتی سرحد صرف ایک میل دور ہے لہٰذا ہماری فوجیں اب بھارتی علاقے میں لڑ رہی تھیں اور شام ہونے تک بھارت کے بڑے تین گاﺅں ”رانی“، ”گھکھڑ“ اور ”منجھ“ ہماری فوجوں کے قبضے میں آچکے تھے۔ فوجی منصوبہ یہ تھا کہ جی ٹی روڈ پر پیش قدمی کرنے والی بھارتی فوج کو واہگہ کے عقب سے گھوم کر کاٹ دیا جائے۔ شام کو بھارت اپنا ایک مزید بریگیڈ میدان میں لایا اور ایک مرتبہ پھر جنگ کا بازار گرم ہوا۔ 8 ستمبر کی شب کو رات بھر لڑائی ہوتی رہی اور 9 ستمبر کو ہماری فوجیں بھارتی فوجوں کو دور تک ان کے اپنے علاقے میں بھگاتی ہوئی لے گئیں۔
اس معرکے میں دشمن کا بے اندازہ جانی نقصان ہوا ور سینکڑوں سپاہی اور افسر قیدی بنائے گئے۔ اس جوابی حملے کا بھارت پر جنگ ختم ہونے تک بیحد خوف طاری رہا حالانکہ دشمن نے اپنے کھوئے ہوئے علاقے واپس لینے کی کئی بار کوشش کی اور لاتعداد سامانِ حرب جنگ میں جھونکا لیکن ہمارے جوانوں کے قدم ان مقامات سے نہ ہلے۔ اعلان تاشقند تک وہ تینوں گاﺅں ہماری افواج کے قبضے میں رہے اور نہر کے اس پار میلوں تک کا علاقہ ہماری افواج کے کنٹرول میں رہا۔
اس معرکے میں پاکستان کے جن بہادروں نے جامِ شہادت نوش کیا ان کے نام دو یادگاروں پر کندہ ہیں جو نہر کے دونوں طرف کھڑی بھارت کی عسکری طاقت کا مذاق اڑا رہی ہیں۔ وہ یادگاریں ان شہداءکی ہیں جو اپنا سب کچھ قربان کر کے اہلِ لاہور کو زندگی بخش گئے۔
وہ یادگاریں آنے والی نسلوں کیلئے روشنی کا مینار، جرا¿ت و ہمت اور سرفروشی کا مقدس نشان ہیں۔
پاک فوج کو سلام
پاک فوج زندہ باد
پاکستان پائندہ باد