اگرچہ بت ہیں ”جماعت“ کی آستینوں میں

Apr 07, 2011

پروفیسر سید اسراربخاری
نوائے وقت اور مجید نظامی کا یہ قصور ہے کہ کے ایم اعظم کی اپنے والد کی سوانح حیات ”حیات سدید“ پر جماعت اسلامی کے الجھاﺅ نگار مبصرین کے اختلافات آفرین خیالات کو من و عن چھاپ دیا تاکہ اہل علم کے سامنے تصنیف اور مصنف کے افکار و معلومات کو پیش کر دیا جائے اور اس عربی مقولے کو پیش نظر رکھا کہ ”من صنف فقد استھدف“ جس نے بھی کتاب تصنیف کی وہ تنقید کا نشانہ بنا ”گویا یہ کتاب لکھنا اس پر تنقید کرنا عام چلن ہے، اور کسی کتاب پر بھی کسی معزز ہستی کا پیش لفظ یا فلیپ لکھنا محض کتاب نوازی ہے۔ ضروری نہیں کہ ایسی حوصلہ افزائی کرنے والی شخصیت اس کتاب کے جملہ مندرجات سے متفق بھی ہو۔ اگر ایسا کرنا مقصود ہو تو وہ کیوں نہ ازخود اس موضوع پر ایک عدد کتاب لکھ دیں۔ مرد صحافت مجید نظامی پیچھے ہٹنے والے ہوتے تو وہ یہ علم نما خرافات چھاپتے ہی کیوں، مگر وہ تو جماعت اسلامی کے ”جواہر علمی“ کو قوم کے سامنے لانا چاہتے تھے اور نوائے وقت کے کالموں کو اتنا بخیل نہیں بنانا چاہتے تھے کہ ان میں ایک نکتے کے گرم بگولے کی طرح گھومنے والے جگہ ہی نہ پا سکیں اور کل کلاں کو وہ شکوہ بلب ہوں۔ اس فراخ دلی کا جواب ان تبصرہ نگاروں نے مجید نظامی کی ذات پر کیچڑ اچھال کر دیا جس کے جواب میں اس کے سوا کیا کہا جائے کہ ذات کی چھپکلیوں نے شہتیروں کو گلے لگانے کی کوشش کی اور اس کوشش رائیگاں سے کم از کم قوم کے مورخوں اور دانشوروں پر یہ تو واضح ہو گیا کہ مولانا مودودی کو کوئی بھی لایا ہو پاکستان ان کے آنے سے نہیں بنا بلکہ اقبالؒ و قائدؒ اسے معرضِ وجود میں لائے اور اگر اقبالؒ، مولانا کو لائے بھی تو یہ ان کا کرم ہے وگرنہ وہ اچھرہ کے ایک بنگلے میں نہیں بادشاہی مسجد کے امام ہوتے۔ اقبالؒ تو پارس تھے، جسے لوہے نے چھو لیا تو وہ سونا بن گیا اور آج اس سونے سے منصورہ کا کاروبار چل نکلا ہے۔ یہ فقط ایک پیش لفظ تھا پیش قبض تو نہ تھا، توقع تو یہ تھی کہ منصورہ سے انقلابِ مصطفوی اٹھے گا جو اس ملک کے محروموں کو نہال کر دے گا مگر ہوا یہ کہ یہ خالی الذہن سکالر کمرشلزم کی بیماری کا شکار ہو گئے اور ایسے مباحث کو لے بیٹھے جو فیصل ہو چکے ہیں، اب غلط مبحث اور تحصیل حاصل کا کیا فائدہ؟ مولانا مودودی اپنی جماعت اسلامی کو بغل میں دبائے لاہور آ گئے، وہ کیسے آئے، اور کہاں کہاں سے ہو کر آئے، کس کے اشارے یا دعوت پر آئے بھلا یہ بھی کوئی علمی و فکری مبحث ہے جس پر اس قدر طومار کھڑا کرکے ایک عظیم ایڈیٹر محب پاکستان قائد کے بارے دریدہ دہنی کی جائے۔ جماعت اسلامی کے لئے نوائے وقت کے کالم ہمیشہ کھلے رہے، ان کی خبریں، ان کے افکار و خیالات الغرض ان کا بھیجا ہوا سب کچھ چھپتا رہا، جس کا صلہ اگر یہ ہے تو ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ
بدم گفتی و خورسندم عفاک نکو گفتنی اللہ
جواب تلخ می زیبد لب لعل شکر خارا
(تو نے مجھے برا کہا، میں خوش ہوں، تجھے اللہ معاف کرے تو نے اچھا کہا کیونکہ سرخ رسیلے ہونٹوں کو جوابِ تلخ زیب دیتا ہے)
اس شعر سے ہرزہ سرائی کرنے والے اپنی جنس کا تعین کر سکتے ہیں۔ ہم نے ”حیات سدید بانی دارالسلام چودھری نیاز علی خان“ مصنفہ کے ایم اعظم (جو کتاب کے مصنف ہیں) کا بالاستعاب مطالعہ کیا ہے اور اس پر وہ تین تبصرے بھی پڑھ لئے ہیں جن میں سے ایک نوائے وقت میں 14 تا 16 نومبر 2010ءکو چھپا ہے۔ تنقید کرنا، پیش لفظ لکھنا، کتاب تحریر کرنا کوئی شجرِ ممنوعہ نہیں، مگر قلم کو لگام دے کے رکھنا بہت ضروری ہے کیوں کہ اللہ نے فرمایا ہے: ن والقلم وما یسطرون، جب اللہ نے قلم کی قسم کھائی ہے، تو اسے گوہر افشاں ہونا چاہئے، نہ کہ کالک نگاہ۔ مجید نظامی نے کے ایم اعظم کی جس کتاب ”حیات سدید“ پر پیش لفظ لکھا ہے، وہ ان کی فیاضی طبع ہے، یہ ضروری نہیں کہ ان کے چند الفاظ کو پوری کتاب کی تصدیق مان لیا جائے البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نظامی صاحب نے پیش لفظ میں جو کچھ بھی لکھا وہ ایک ایسا کڑوا سچ ہے جسے جماعت اسلامی ہضم نہیں کر پا رہی اور اس کی کوشش ہے کہ علامہ اقبال کو مولانا مودودی کے پاکستان میں ہونے کا محتاج ثابت کیا جائے۔ اگر علامہ نے مولانا کو ملا کہا اور بادشاہی مسجد کی امامت کے قابل قرار دیا، تو جماعت اسلامی مولانا کو علامہ اقبال سے اونچا لے جانے کی کوشش نہ کرے۔ اقبال اپنے وقت کی گلیکسی کا آفتاب تھے۔ اس کو کوئی کراس نہیں کر سکا تھا بلکہ قائداعظم جیسی عظیم شخصیت نے ان کے حکم کی تعمیل کی۔ اقبال کا قد چھوٹا کرنے سے مولانا کا تو وجود ہی باقی نہیں رہے گا۔ یہ بات شواہد سے ثابت کی جا سکتی ہے کہ مولانا مودودی کے علامہ اقبال سے قربت کے قصے گھڑے گئے، ان میں صداقت نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ جماعت اسلامی کے صِفرالیدین نام نہاد سکالر بتکلف مودودی اقبال کو الگ الگ دیکھیں اور چہ نسبت خاک را بعالم پاک پر غور کر لیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان کو وجود میں لانے کے لئے مولانا کی خدمات صفر ہیں بلکہ وہ پاکستان بنانے کے حق میں ہی نہ تھے، ہوتے تو 46ءکے انتخابات میں پاکستان کے حق میں ووٹ دیتے غیر جانبدار نہ رہتے۔ آج اگر جماعت اور اس کے امیر کو ارض پاکستان نے قبول کیا ہے تو اسے غنیمت سمجھنا چاہئے۔
مزیدخبریں