جب بھی 4اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کا دن آتا ہے تو گڑھی خدا بخش میں پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں اور کارکنوں کی زبان پر بے ساختہ یہ نعرہ گونج اٹھتا ہے ”کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے۔“ کیا واقعی آج بھٹو اپنے نظریات، فلسفہ مساوات جمہوریت پر ایمان اور غریبوں کے لئے دردمندانہ جذبات کی بدولت عوام کے دلوں میں زندہ ہے یا پیپلز پارٹی کی رخصت ہونے والی موجودہ حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کے افکار و نظریات سے عملاً انحراف کر کے اسے تاریخ میں زندہ و جاوید رکھنے کی بجائے اسے تاریخ کے گمنام قبرستان میں زندہ درگور کر دیا ہے۔ اب تو گڑھی خدا بخش میں آصف علی زرداری بلند آہنگ لب و لہجے میں یہ عزم دہرا رہے ہیں کہ وہ اپنا نام تاریخ میں بھی ہمیشہ زنداں و جاوداں رکھیں گے۔ یقیناً پاکستانی تاریخ کا مورخ یہ الفاظ سنہری قلم سے رقم طراز کرے گا کہ کس طرح بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پارٹی کو آصف علی زرداری نے سرمایہ دارانہ اور تاجرانہ ذہنیت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ لہٰذا آج پیپلز پارٹی نے بھٹو سے زرداری تک جو سیاسی سفر طے کیا ہے اس کے تناظر میں تو اب جیالوں کا یہ نعرہ ہونا چاہئے تھا کل تو بھٹو زندہ تھا، آج تو ہم شرمندہ ہے۔
کچھ عرصے پہلے ہمارے دوست ادیب جاودانی نے اپنی کتاب ”بھٹو کی پھانسی اور بے نظیر کا قتل“ کی تقریب پذیرائی میں دو دفعہ قمرالزمان کائرہ کو مہمان خصوصی بلایا مگر وہ دونوں دفعہ عین وقت پر جاودانی صاحب کو غنچہ دے جاتے اور ادیب جاودانی صاحب اپنی کتاب کی تقریب میں حاضرین مجلس کو یہ بات سنا کر بڑا محظوظ کرتے کہ میں دوران تقریب بار بار قمرالزمان کائرہ کو فون کرتا رہا ہوں تاکہ معلوم کروں کہ وہ کب پہنچیں گے مگر ان کے ٹیلی فون پر ایک ہی ٹیپ چل رہی ہے کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ لہٰذا کائرہ صاحب کے خیال میں جب بھٹو زندہ ہے تو پھر اس کی شہادت کو خراج تحسین پیش کرنے والی تقریب میں جانے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر کاش کائرہ صاحب کو کوئی یہ بھی بتا دیا جائے کہ اب لوگ جہاں کہیں کوئی احتجاج ہوتا ہے تو کچھ من چلے تمسخرانہ انداز میں بروزن بھٹو زندہ یا کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا کے وزن پر مزاحیہ نعرے لگانے شروع کر دیتے ہیں ۔
لہٰذا دنیا کی تاریخ میں تو ذوالفقار علی بھٹو مزاحمتی کردار کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے مگر پیپلز پارٹی کی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ وگرنہ کیا آج منظور وٹو پنجاب پیپلز پارٹی کا صدر ہوتا۔ کیا چودھری ظہور الٰہی جنہوں نے بھٹو کی پھانسی کی سزا برقرار رکھنے والا قلم ضیاالحق سے تحفتاً مانگ لیا تھا اور جس قاف لیگ کو آصف علی زرداری نے قاتل لیگ کہا تھا وہ آج پیپلز پارٹی کی حلیف ہوتی۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ وہ پیپلز پارٹی جہاں بھٹو کی نسل کے اصل وارث ذوالفقار علی بھٹو جونیئر اور فاطمہ بھٹو ڈر اور خوف کی وجہ سے سیاست سے کنارہ کش ہیں وہاں حاکم علی زرداری جو اے این پی کے بانی رکن تھے اور اس اے این پی پارٹی کے سابق سربراہ ولی خان نے ضیاالحق کو متنبہ کر دیا تھا کہ قبر ایک ہے اور بندے دو ہیں۔ یہ سن کر ضیاالحق نے دہشت زدہ ہو کر بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا اور آج ولی خان کا بیٹا اسفند ولی یار اور اس کی پارٹی پیپلز پارٹی کی حلیف ہے تو پھر کیسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کی پیپلز پارٹی کا کوئی تعلق ذوالفقار علی بھٹو کی ماضی کی پیپلز پارٹی سے ہے۔ ماضی کی پیپلز پارٹی جس کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے ساتھیوں ڈاکٹر غلام حسین، شیخ رشید احمد، جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن، بختیار رانا حتیٰ کہ ممتاز بھٹو، حفیط پیرزادہ اور مصطفی جتوبی جیسے وڈیروں کے دامن پر بھی کرپشن کا کوئی داغ نہیں تھا مگر آج سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق آصف علی زرداری سمیت یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف سمیت کوئی ایک بھی موجودہ پیپلز پارٹی کا رہنما بتا دیں جس نے بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ نہیں دھوئے ہیں۔ لہٰذا بلاول زرداری صاحب سے التماس ہے کہ پانچ سالوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے مکمل اختیارات اور من مرضی کے ساتھ حکومت کی اور پاکستان کو معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچایا اور آج بھی بھٹو کی برسی پر کہا کہ ہم سے ناانصافی ہوتی رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ ہمارے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت ختم کی گئی اور اب دوسرے وزیراعظم کو جیل بھجوایا جا رہا ہے۔ خدا آپ کی سوچ و فکر کو درست کرے۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو کرپشن کے الزامات کے تحت جیل بھیجا گیا تھا۔ کیا اسے پھانسی اپنے دامادوں، بیٹوں اور بیٹیوں کو نوازنے کی وجہ سے دی گئی تھی۔ نہیں ایسا نہیں تھا۔ بھٹو نے پھانسی کے پھندے کو اس لئے قبول کیا تھا کہ وہ سامراج کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا۔ وہ اسلامی ملکوں کے درمیان اتحاد کی علامت تھا۔ اس نے قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا تھا اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد ڈالی تھی۔ وہ پاکستان کے غریب عوام کے ساتھ محبت اور رومانس کا گہرا رشتہ رکھتا تھا۔ بھٹو صاحب کہتے تھے ”زندگی محبت کاملہ ہے۔ فطرت کی ہر خوبصورتی کے ساتھ اظہار عشق کیا جاتا ہے مجھے یہ کہنے میں کوئی پس و پیش نہیں ہے کہ میرا رومانس عوام کے ساتھ ہے وہ اپنی بیٹی بے نظیر کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں تم بڑی نہیں ہو سکتی ہو۔ جب تک تم زمین کو چومنے کے لئے تیار نہ ہو جاﺅ۔ یعنی عاجزی کا رویہ اختیار نہ کرو جب تک تم زمین کی خوشبو سے آشنا نہ ہو گی تو تم اس کا دفاع بھی نہیں کر سکو گی۔ ایک سچے اور جمہوری لیڈر کے نظریات، اصول اور فلسفہ حیات عوام کی تمناﺅں کے ساتھ مکمل ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ جب عوامی امنگوں کے راگ اور موسیقی کے سر ہمیں سمجھ آ جاتے ہیں تو تب قوموں کی منزل کے نشان واضح ہوتے ہیں۔
میری بیٹی میں اس جیل کی کوٹھڑی سے تمہیں کیا تحفہ دے سکتا ہوں جس کی سلاخوں کے باہر میں اپنا ہاتھ بھی باہر نہیں نکال سکتا ہوں۔ میں تمہیں عوام کا تحفہ دے سکتا ہوں۔ تم ایک قدیم تہذیب کی وارث ہو۔ اس قدیم تہذیب کو انتہائی ترقی یافتہ اور انتہائی طاقتور بنانے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا تمہارا سیاسی فرض ہے۔
میری طاقتور معاشرہ سے مراد یہ نہیں کہ معاشرہ خوف کی علامت بن جائے۔ ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ وہ ہوتا ہے جس نے قوم کے خصوصی جذبہ کی شناخت کرلی ہو۔ جس نے ماضی و حال سے مذہب اور سائنس سے جدیدیت اور تصوف سے، مادیت اور روحانیت سے سمجھوتہ کر لیا ہو۔ ایسا معاشرہ ہیجان و خلفشار سے پاک ہوتا ہے۔ کلچر سے مالا مال ہوتا ہے تاہم ایسا متوازن معاشرے شعبدہ بازی اور دھوکہ بازی کے ذریعے معرض وجود میں نہیں لایا جا سکتا ہے۔ میری بیٹی تمہیں آخر تک بنی نوع انسان کے وقار، ذاتی احترام اور مساوات کے لئے جدوجہد جاری رکھنی چاہئے۔ چیئرمین ماﺅزے تنگ نے حقائق سے سچائی تلاش کرنے کے تصور کو اجاگر کیا۔ میں تمہاری رہنمائی کر رہا ہوں کہ تم ہمارے معاشرے کے تاریخی حالات سے سچائی تلاش کرو۔ اور عوام کے مسائل کی صحیح شناخت کے ساتھ ان کا صحیح حل تلاش کرو۔ میں موت کی کوٹھڑی میں ہوں۔ ہائی کورٹ نے مجھے موت کی سزا سنائی ہے مگر میں اپنے آپ کو خوش قسمت انسان تصور کروں گا کہ اگر پاکستانی عوام کے تاریک موسم سرما میں دھوپ کی کرن پھوٹ پڑے اور ان کے لئے مسرت و شادمانی کے حسین پھول کھل جائیں۔
قارئین! بھٹو کے ان الفاظ کے سحر میں کھونے سے پہلے یہ دیکھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی عظیم شہادت کے بعد مسرت و شادمانی کے پھول کن سرمایہ دار اور وڈیروں کے آنگنوں میں کھلے اور پیپلز پارٹی میں بھٹو سے عشق کرنے والوں کے ہاں بھوک، ننگ اور افلاس کے ڈیرے ابھی بھی آباد ہیں اور پیپلز پارٹی کے عہد حکومت میں بقول جالب ....
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
پاﺅں ننگے ہیں بے نظیروں کے
کیا بھٹو آج بھی زندہ ہے؟
Apr 07, 2013