اچھے برے یا چھوٹے بڑے کی میں بات نہیں کروں مگر چودھری اعتزاز احسن سپریم کورٹ کے ایک ایڈووکیٹ ہیں اور صدر آصف علی زرداری کی خصوصی مہربانیوں کے باعث اس وقت وہ سینٹ کے رکن بھی ہیں۔ ایک ایڈووکیٹ کے طور پر اعتزاز احسن کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اقبالِ جرم کرنے والا ملزم سے مجرم بن جاتا ہے اور عدالت کی سزا سے نہیں بچ سکتا۔ اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ قائداعظم بھی آج زندہ ہوتے تو آئین کے آرٹیکل 63,62پر پورا نہ اترتے اور آئین کی ان دفعات میں پھنس کر رہ جاتے۔ اعتزاز احسن نے آسمان پر تھوکنے کی کوشش کی ہے اور اتنے سمجھدار وہ ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ آسمان پر تھوکنے کی بے وقوفانہ کوشش کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ یعنی آسمان پر تھوکنے والاخود ذلت کا شکار ہو جاتا اور وہی تھوک اس کے چہرے پر آ گرتی ہے۔ اعتزاز احسن کی یہ بات تو انتہائی لغو اور بے ہودہ ہے کہ قائداعظم بھی آرٹیکل 63,62 پر پورا نہ اترتے البتہ انہوں نے یہ کہہ کر خود اقبالِ جرم کر لیا ہے کہ وہ ہرگز آرٹیکل 63,62 پر پورا نہیں اترتے۔ اگر ان کے نزدیک قائداعظم آرٹیکل 63,62 میں پھنس سکتے تھے۔ تو پھر اعتزاز احسن کی قائداعظم کے مقابلے میں کیا اوقات اور حیثیت ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا اتر سکتا۔ قائداعظم برصغیر کے مسلمانوں کے امام، ہادی، پیشوا، راہبر اور مسلمہ (تسلیم شدہ) لیڈر تھے اور اعتزاز احسن صرف صدر آصف زرداری کی خوشنودی کا محتاج۔ اگر زرداری کی ناراضی (لفظ ناراضگی غلط العام ہے) برقرار رہتی تو آج اعتزاز احسن بھی بے نظیر بھٹو کی سب سے قریبی ساتھی ناہید خاں کی طرح دربدر ہو چکے ہوتے۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اگر قائداعظم جیسے جلیل القدر لیڈر بھی آرٹیکل 63,62 پر بقول اعتزاز احسن پورا نہیں اتر سکتے تھے تو پھر یہ بات تو طے شدہ ہے کہ اعتزاز احسن سے صدر زرداری تک سب آرٹیکل 63,62 کا یقینا شکار ہو سکتے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپنے احساس جرم کو چھپانے کے لئے اعتزاز احسن نے خواہ مخواہ قائداعظم جیسی محترم اور باوقار ہستی کا حوالہ دینے کی ناپاک جسارت کیوں کی ہے۔ قائداعظم کا نام لے کر اپنی نااہلیوں اور نالائقیوں کا جواز پیدا کرنا انتہائی غیر اخلاقی عمل ہے۔ تحریک پاکستان میں مولانا اشرف علی تھانوی سے لے کر مولانا شبیر احمد عثمانی جیسے شیخ الاسلام تک قائداعظم کے جھنڈے کے ساتھ تھے۔ مختلف مکاتب فکر کے ممتاز علماءاور گدی نشین پیر اپنے لاکھوں مریدوں کے ساتھ قائداعظم کی امامت اور لیڈر شپ قبول کرکے تحریک پاکستان میں اپنا تاریخی کردار ادا کر رہے تھے۔ اس قائداعظم سے بیچارے اعتزاز احسن اور اس جیسوں کی کوئی نسبت یا تقابل ہی نہیں البتہ اعتزاز احسن کا یہ اقبالِ جرم ریکارڈ پر آ گیا ہے کہ وہ خود اور اس کی اہلیہ بشریٰ اعتزاز بھی آرٹیکل 63,62 پر پورا نہیں اترتے۔ اس اقبال جرم کے بعد اعتزاز احسن آئینی طور پر سینٹ کے ممبر برقرار نہیں رہ سکتے اور بشریٰ اعتزاز بھی جو اس وقت قومی اسمبلی کی امیدوار ہیں وہ بھی نااہل امیدوار ثابت ہو جاتی ہیں۔ اعتزاز احسن نے جب یہ تسلیم کر لیا ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 63,62 پر پورا نہیں اترتے۔ کیونکہ بقول ان کے جب قائداعظم 63,62 کا معیار پورا نہیں کر سکتے تو پھر قائداعظم کی عظمتِ کردار کے مقابلے میں اعتزاز احسن جیسا کم مرتبہ سیاستدان تو آئین کے آرٹیکل 63,62 کے سامنے بالکل ٹھہر ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ اس اقبالِ جرم کے بعد اعتزاز احسن کو اخلاقی جرات (اگر وہ اس سے محروم نہیں ہیں) کا مظاہرہ کرتے ہوئے سینٹ کی رکنیت سے فی الفور مستعفی ہو جانا چاہئے۔ جس طرح جعلی ڈگری والے منتخب ارکان اسمبلی بھی نااہل قرار پا گئے تھے۔ اسی طرح 63,62 پر پورا نہ اترنے والے بھی پارلیمنٹ کے ممبر نہیں رہ سکتے اور اعتزاز احسن تو عملاً اپنی نااہلیت کا اعتراف کر چکے ہیں پھر و ہ سینٹ سے مستعفی کیوں نہیں ہو رہے؟۔ کیا آرٹیکل 62 اور 63 کی بنیاد پر اعتزاز احسن کے اقبال جرم کے بعد کسی ذمہ دار پاکستانی شہری کو عدالت کے دروازے پر دستک دینا پڑے گی یا اعتزاز احسن خود استعفیٰ دے دیں گے؟۔ ویسے سپریم کورٹ اگر اعتزاز احسن کے بیان کا ازخود نوٹس لے کر بھی فیصلہ کر دے تو یہ ایک مثال قائم ہو جائے گی کہ 63,62 پر پورا نہ اترنے والے اب اسمبلیوں میں نہیں جا سکتے۔ سپریم کور ٹ ازخود نوٹس لینے کے معاملہ میں بہت فعال ہے اور یہ تو ایک انتہائی اہم آئینی معاملہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو خود اعتراف جرم کر رہا ہے کہ اس سمیت کوئی بھی آرٹیکل 63,62 پر پورا نہیں اترتا تو وہ پھر سینٹ کی غیر آئینی رکنیت کیوں برقرار رکھے ہوئے ہے؟۔