کسی بھی مداخلت کے بغیر آزادانہ انتخابات کرائے جائیں : آل پاکستان وکلا کنونشن

لاہور (وقائع نگار خصوصی) آل پاکستان نمائندہ وکلاءکنونشن نے اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی میرٹ پر کرنے، ازخود نوٹس میں انٹراکورٹ اپیل کا حق دینے، کسی بھی طرح کی مداخلت کے بغیر آزادانہ انتخابات کے انعقاد، بلوچستان کے مغوی سینئر وکیل صلاح الدین مینگل کی بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیراہتمام آل پاکستان نمائندہ وکلاءکنونشن میں خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ریٹرننگ افسر الیکشن کمشن کے تابع ہیں۔ وہ انتظامی امور انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریٹرننگ افسر آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے نام پر سکروٹنی کے دوران جس طرح کے سوالات کر رہے ہیں وہ قانون کی خلاف ورزی اور جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ ریٹرننگ افسروں کو کسی بھی طرح کی ہدایت دینا الیکشن کمشن کا کام ہے۔ عدلیہ کو کوئی ہدایات نہیں دینی چاہئے۔ اس وقت وہی لوگ سامنے آ رہے ہیں جو سیاسی جھاڑو پھیرنے کی باتیں کرتے تھے۔ اب صحافی بھی وکلاءکو یہ بیٹھ کر سکھا رہے ہیں کہ قانون کیا ہے۔ اگر ان کی یہی باتیں ٹھیک ہیں تو وہ کالے کوٹ پہن لیں۔ احتساب کی آڑ میں کچھ اور کیا جا رہا ہے۔ ہمارے سیاستدان ہوشیار تو ہیں مگر دور اندیش نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضیاءالحق نے دستور میں آرٹیکل 62 اور 63 کو شامل کیا جبکہ دوسرے آمر نے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے گریجوایشن کی شرط رکھ دی۔ یہ آمرانہ سوچ ہے کہ صرف پڑھے لکھوں کو باشعور سمجھا جائے۔ شعور ڈگریوں سے نہیں آتا۔ انہوں نے ریٹرننگ افسروں کو غیرضروری سوالوں سے روکنے کیلئے ہائی کورٹ کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین قلب عباس نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں چند ججز کے سوا سبھی پی سی او جج ہیں جبکہ اس بنیاد پر ججز کو تھوک کے حساب سے ججز کی تقرری میں وکلاءکو بامعنی مشاورت کا حق دیا جائے۔ گزشتہ چار سال میں ازخود نوٹس کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی۔ اس میں اپیل کا حق ملنا چاہئے۔ وکلاءآزاد اور شفاف انتخابات چاہتے ہیں، جس پارٹی کے ساتھ بھی زیادتی ہو گی، وکلاءاس کا ساتھ دینگے۔ لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر عابد ساقی نے کہا کہ سکروٹنی کے نام پر ریٹرننگ افسر جو کچھ کر رہے ہیں وہ آئین کے آرٹیکل 4 کی خلاف ورزی ہے۔ سوال پوچھنے کے نام پر امیدواروں کی کردارکشی کی جا رہی ہے، یہ سب مضحکہ خیز ہے۔ سکروٹنی کے نام پر لوگوں کے بیڈروم تک کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ وہ اس طرح کی سکروٹنی کی مذمت کرتے ہیں۔ بلوچستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین منیر احمد کاکڑ نے کہا کہ منظور نظر لوگوں کی عدلیہ میں تقرریاں کی جا رہی ہیں، عدلیہ کو آزاد کے ساتھ غیر جانبدار بھی ہونا چاہئے۔ بلوچستان ہائی کورٹ بار کے صدر ظہور الدین شہوانی نے کہا کہ گزشتہ حکومت کو آئین سے آرٹیکل 62 اور 63 ختم کرنا چاہئے تھا، ججز کی تقرریوں کے معاملے پر وکلاءکو بات کرانی چاہئے۔ سپریم کورٹ بار کے سیکرٹری راجہ جاوید اقبال نے کہا کہ بار کونسلز کو ججوں کی تقرری میں بامعنی کردار دیا جائے۔ آج معاشرہ اور قوم ہم سے سوال کرتے ہیں کہ اگر سب کچھ ایسے ہی ہونا تھا تو عدلیہ کو بحال کرانے کا کیا فائدہ ہوا۔ ہم عدالتی نظام اور عدلیہ کے ادارے میں اصلاحات چاہتے ہیں۔ عدلیہ کو سیاسی اور سماجی انصاف ضرور دینا چاہئے مگر اس ادارے کا سیاسی کردار نہیں ہونا چاہئے۔ لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر عابد ساقی کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ کنونشن میں ملک بھر سے وکلاءتنظیموں کے عہدیداروں نے شرکت کی۔وکلا کنونشن میں قرارداد منظور کی گئی کہ چیف جسٹس صاحبان ریٹرننگ افسروں سے خطاب نہیں کر سکتے 

ای پیپر دی نیشن