وطنِ عزیز پاکستان میں بہت سے محروم اور توجہ طلب طبقوں میں سے ایک طبقہ ان ریٹائرڈ ملازمین کا بھی ہے جنہیں سرکار ایک خاص عمر تک استعمال کرنے کے بعد چلے ہوئے کارتوس کی طرح یکسر نظر انداز کر دیتی ہے اور معاشرہ بھی پَل بھر میں ان سے آنکھیں پھیر لیتا ہے تو وہ ایک دم شاک میں چلے جاتے ہیں اور سمجھ نہیں پاتے ع
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو
یہ ملازمین جو لگی بندھی تنخواہ میں ایک مخصوص طرزِ زندگی بسر کرنے کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں جب ایک دم اس سے محروم ہو جاتے ہیں، تو طرح طرح کی مشکلات اور پریشانیوں میں گِھر جاتے ہیں کہ عام طور پر عمر کے اس حصے میں جب وہ ریٹائر ہوتے ہیں، ان کے بچے تعلیم کے آخری مراحل طے کر رہے ہوتے ہیں یا پھر وہ شادی بیاہ کی عمروں میں پہنچ چکے ہوتے ہیں تو ان کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں جس کیلئے انہیں معقول آمدنی درکار ہوتی ہے، جو وہ حاصل نہیں کر پاتے تو زندگی ان کیلئے اجیرن بلکہ عذاب بن جاتی ہے۔ ہم یہاں ان چند ’’مراعات یافتہ‘‘ محکموں کے ملازمین کی بات نہیں کر رہے ہیں، جنہیں ’’فصلِ محکمہ‘‘ بدرجہ اتم دستیاب ہوتا ہے۔ ہم تو یہاں ان محکموں کے ملازمین کی بات کر رہے ہیں جنہیں خالصتاً اپنی محدود تنخواہ میں گزر بسر کرنا ہوتی ہے اور یہ ایک بڑی اکثریت میں پائے جاتے ہیں اور پھر ہوتا یہ ہے کہ ان ملازمین کی ریٹائرمنٹ پر ان کی تنخواہ، پنشن کے نام پر آدھی کر دی جاتی ہے اور باقی آدھی اگلے پندرہ سالوں کیلئے انہیں یکمشت ادا کر دی جاتی ہے اور پھر پندرہ سالوں کے بعد، وہ زندہ رہیں، جو بہت کم ہوتا ہے، انکی پوری تنخواہ بحال کر دی جاتی ہے لیکن انکی پوری تنخواہ بحال کر دی جاتی ہے لیکن ان پندرہ سالوں میں حکومتیں جو وقتاً فوقتاً ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرتی رہتی ہیں، پنشنر حضرات کو اس کا آدھا حصہ ملتا ہے کہ انہیں یہ اضافہ اس رقم پر ملتا ہے جو وہ پنشن کے طور پر حاصل کر رہے ہوتے ہیں اور پندرہ سال بعد جب ان کی پوری تنخواہ بحال ہوتی ہے تو قانون کیمطابق انکے ان اخراجات کے بقایا جات بھی ملنے چاہئیں انہیں ان کیساتھ عام طور پر حکمران یا انکے کج ادا افسر مختلف حیلوں بہانوں سے انکی اس ادائیگی میں لیت و لعل کرتے ہیں۔
ایسی ہی صورتحال سے دوچار حال ہی میں کچھ ریٹائرڈ ملازمین نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا تو عدالت عظمیٰ نے ان کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے انکی ایسی ادائیگیوں کیلئے واضح اور فوری احکامات جاری کئے جس پر تمام وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ریٹائرڈ ملازمین کو یہ ریلیف بلا روک ٹوک ملنے لگا لیکن پنجاب میں جب موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی تو خادم اعلیٰ پنجاب کو نہ جانے کیا سوجھی کہ سپریم کورٹ کے اس حکم کو سپریم کورٹ میں ریویو کرنے کی استدعا کر دی اور اسی بہانے ان بزرگ ریٹائرد ملازمین کے اس حق کو ادا کرنے سے روک دیا جبکہ وفاق اور دیگر صوبوں کے ریٹائرڈ ملازمین اس ریلیف سے برابر مستفید ہو رہے ہیں۔ اب پنجاب والوں کو اگرچہ یقین ہے کہ اس ریویو میں بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک بار پھر ان کے حق میں آئے گا لیکن وہ سخت دلبرداشتہ ہیں کہ عدالتوں کے معاملے وقت طلب ہوتے ہیں۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ اس وقت پورے صوبہ پنجاب میں کتنے 75 سالہ ریٹائرڈ ملازمین بقید حیات ہوں گے، یہی کہ چند سو یا چند ہزار جن کی پنشنوں کا یہ حصہ روک کر وزیر اعلیٰ پنجاب، پنجاب کے خزانے کو ’’تقویت‘‘ پہنچانا چاہتے ہیں اور یہ ’’تقویت‘‘ کتنی مالیت پر محیط ہو گی۔ یہ تو وزیر اعلیٰ ہی جانتے ہونگے لیکن ہم جو جانتے ہیں تو یہی کہ وہ صوبے کے ہزاروں نوجوانوں کو بہلانے کیلئے کروڑوں کی مالیت کے لیپ ٹاپ، کھلونوں کی صورت میں بانٹتے پھرتے ہیں لیکن صوبے کے چند صد بزرگوں کو اپنا حق دینے سے ناحق بخل سے کام لے رہے ہیں، یہ تضاد کیوں؟ اس کا جواب انہیں اب نہیں تو اگلے جہاں، اگلی عدالت میں ضرور دینا ہو گا جس سے کوئی بھی نہیں بچ پائے گا۔
قارئین کرام، ہم یہ کالم یہاں تک لکھ پائے تھے کہ یکے از متاثرین سے ہمیں یہ اطلاع ملی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب حکومت کی یہ استدعا خارج کر دی ہے اور فیصلہ ریٹائروڈ ملازمین کے حق میں برقرار رکھا تو یہاں بے ساختہ ہمارے قلم سے بھی یہ الفاظ نکلے ’’تھینک یو ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان‘‘ کہ ہم بھی ان متاثرین میں شامل ہیں۔