4 اپریل کو جناب ذوالفقار علی بھٹو کی 35وِیں برسی کے موقع پر گڑھی خُدا بخش میں جلسہ¿ عام سے خطاب کرتے ہُوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری نے اپنے ”روحانی والد“ کو ”سیاسی سائِنسدان“ کا خطاب دِیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جنابِ زرداری اپنے دورِ صدارت میں بھٹو صاحب کو یہ خطاب دیتے اِس طرح اِس خطاب کی کوئی سرکاری حیثیت بھی ہو جاتی۔ ”سائِنس“ کیا ہے؟ حکِمت حقائق یا اصولوں کا علِم‘ خصوصاً وہ جو صداقتوں سے سروکار رکھتا ہو۔ مَیں نے اپنی 54 سالہ صحافتی زندگی میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کا عروج و زوال دیکھا ہے۔ جنابِ زرداری کے تازہ ترین انکشاف کے بعد مَیں نے اپنا ذہن ماضی کی طرف دَوڑایا تو مَیں پہلے سے زیادہ جنابِ زرداری کی ذہانت و فطانت کا قائل ہو گیا ہُوں۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو واقعی ”سیاسی سائنِسدان“ تھے لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ جناب آصف علی زرداری بھی جناب ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ”سیاسی سائنِسدان“ ہی ہیں۔
-7 اکتوبر 1958ءکو صدر سکندر مرزا نے مُلک میں مارشل لاءنافذ کِیا تو جنابِ بھٹو کو مارشل لائی کابینہ میں شامِل کر لِیا تھا۔ بھٹو صاحب نے خود کو ”سیاسی سائنِسدان“ ثابت کرنے کے لئے پہلا کام یہ کِیا کہ صدر سکندر مرزا کے نام اپنے ایک خط میں لکِھا کہ ”جنابِ صدر! آپ قائدِاعظمؒ سے بھی بڑے سیاستدان ہیں“ 20 دِن بعد چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان نے صدر سکندر مرزا کو تو رات کے اندھیرے میں جِلاوطن کر دِیا لیکن جنابِ بھٹو کو وفاقی وزیر بنائے رکھا پھِر جنابِ بھٹو کی ”سیاسی سائنِس“ کے باقاعدہ کمالات کا دَور شروع ہُوا۔ انہوں نے صدر ایوب خان کو ”ایشیاءکا ڈِیگال“ اور ”صلاح الدّین ایوبی ثانی“ مشہور کرنے کا اعزاز حاصل کِیا کنونشن مسلم لیگ کی تشکیل ہُوئی تو فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اُس کے صدر اور جناب بھٹو مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب ہُوئے یہ بھی بھٹو صاحب کی ”سیاسی سائنس تھی۔ جنوری 1965ءمیں ہونے والے صدارتی انتخاب میں ”مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح“ کے مقابلے میں صدر ایوب خان کے " Covering Candidate " تھے۔ صدر ایوب خان کو خطرہ تھا کہ ”فیلڈ مارشل“ (سرکاری ملازم) ہونے کی وجہ سے کہیں چیف الیکشن کمشنر انہیں انتخاب کے لئے نااہل ہی قرار نہ دے دیں۔
جنابِ بھٹو نے ایک اور موضع پر اپنی سیاسی سائنِس کا کمال دکھِانے کی کوشش کی تھی جب صدر ایوب خان کو یہ مشورہ دِیا تھا کہ ”ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو مسلم لیگ کنونشن کا ضلعی صدر اور سُپرِنٹنڈنٹ آف پولیس کو سیکرٹری جنرل ”منتخب“ کرا دِیا جائے“ صدر ایوب خان کی اپنی ”سیاسی سائنِس“ تھی کہ انہوں نے بھٹو صاحب کا یہ مشورہ ماننے سے انکار کر دِیا۔ بھٹو صاحب نے 1970ءکے عام انتخابات کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی شیخ مجیب اُلرحمن کی پاکستان عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں ہونے دِیا اور اپنی پارٹی (پاکستان پیپلز پارٹی) کے لئے بھی اقتدار طلب کِیا۔ ”اُدھر تم اِدھر ہم“ کا نعرہ لگایا اور دُنیا کی تاریخ میں پہلے سِویلین چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان بھی منتخب ہو گئے۔
جنابِ بھٹو کا ”سیاسی سائنِسدان“ ہونے کا اُس وقت بھی ثبوت مِلا جب انہوں نے اقتدار میں آکر اپنے جانشین معراج محمد خان اور مختار رانا کو سِویلین مارشل لاءکے تحت چار چار سال کے لئے جیل بھجوایا۔ پارٹی کے بانی مرکزی سیکرٹری جنرل اور وفاقی وزیر جے اے رحیم کو ایف ایس ایف کے اہلکاروں سے ٹُھڈے مروائے اور اُن کے بیٹے پر تشدد کروایا‘ پارٹی کی اصولی کمیٹی کے رُکن جناب حنیف رامے کو جیل بھجوایا اور خورشید حسن مِیر سمیت پارٹی کے کئی لیڈروں کو پارٹی سے نکلنے پر مجبور کِیا۔ اِس لئے کہ وہ سب پارٹی میں انتخابات کرانے کا مسلسل مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ جنابِ بھٹو کی ”سیاسی سائنِس“ ہی تھی کہ انہوں نے سات آٹھ سینئر جرنیلوں کو نظرانداز کرکے فدوی قسم کا جرنیل سمجھ کر جنرل ضیاءاُلحق کو چیف آف آرمی سٹاف بنایا۔ یہ بھی تو بھٹو صاحب کی ”سیاسی سائنِس“ ہی تھی کہ وہ ”غریبوں کے حق میں انقلاب“ لانے کا وعدہ اپنے ساتھ ہی لے گئے اور ”جاوداں“ ہو گئے۔
”کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے“ کا نعرہ بھی ایک ”سیاسی سائنِس“ ہے۔ یہ جناب آصف زرداری اور اُن کے مرحوم والد جناب حاکم علی زرداری کی ”سیاسی سائنِس“ ہی تھی کہ دونوں1985ءکے غیر جماعتی انتخابات میں نواب شاہ سے صوبائی اور قومی اسمبلی کے امیدا وار بن گئے لیکن ہار گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور اُن کی پارٹی نے اُن انتخابات کا بائیکاٹ کِیا تھا۔ یہ اُن کی اپنی ”سیاسی سائنِس“ تھی یہ فیصلہ آسمانوں پر ہُوا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے آصف زرداری کی شادی ہو گئی لیکن جناب ِ زرداری کامیاب ”سیاسی سائنِسدان“ ثابت ہُوئے۔ انہوں نے شادی کے بعد ہی جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کو ” شہید“ کہنا شروع کر دِیا تھا۔ اِس کے باوجود ”دُخترِ مشرق“ نے ”دامادِ مشرق“ کو اپنی زندگی میں پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا۔ یہ جنابِ زرداری کی ”سیاسی سائنِس“ ہی تھی کہ محترمہ بے نظیر کی مُبینّہ برآمدہ وصِیت کے بعد انہوں نے اپنے بیٹے بلاول زرداری کو ”بھٹو“ بنا دِیا اور پارٹی کا چیئرمین بھی۔
جناب آصف زرداری کی ”سیاسی سائنِس“ کا کمال ہے کہ اُن کے پانچ سالہ دورِ صدارت میں اُن کے نامزد کردہ دونوں وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف سمیت پیپلز پارٹی کے مختلف قائدین کے خلاف فوجداری مقدمات لٹک رہے ہیں یا انہیں لٹکایا جا رہا ہے۔ اب خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سمیت کوئی بھی مسلم لیگی لیڈر جناب زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات نہیں کرتا اور نہ ہی اُن سے لُوٹی ہُوئی دولت واپس لینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اِس لئے کہ ”جمہوریت کا تسلسل“ سب سے بڑا نظریہ¿ ضرورت ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے بجائے بھارت سے تجارت بھی ایک ”سیاسی سائنِس“ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو‘ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ جنرل (ر) پرویز مُشرّف‘ جناب آصف زرداری اور اب وزیرِاعظم نواز شریف سب کے سب ”سیاسی سائنِسدان“ ہیں لیکن ہر ایک کی ”سائنِس“ کا انداز مختلف ہے۔ میرے نزدیک جناب آصف زرداری دَورِ حاضر کے سب سے بڑے ”سیاسی سائنِسدان“ ہیں 12 اکتوبر 1999ءکو جب جنرل پرویز مُشرّف نے منتخب وزیرِاعظم میاں نواز شریف کی حکومت بر طرف کی تھی تو جناب آصف زرداری جیل میں تھے اور انہوں نے تمام قیدیوں میں کئی من مٹھائی تقسیم کی تھی۔ یہ بھی ایک ”سیاسی سائنِس“ تھی۔ این آر او اور جنرل (ر) پرویز مُشرّف کی ”سیاسی سانئِس“ تھی یا محترمہ بے نظیر بھٹو کی؟ اِس بارے میں راوی خاموش ہے لیکن جنابِ زرداری نے پانچ سال تک ڈٹ کر حکومت کی اور اُس سے پہلے جنرل (ر) پرویز مُشرّف کو پورے پروٹوکول کے ساتھ رخصت بھی کر دِیا۔ اور اب صورت یہ ہے کہ وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے مسلم لیگ ن کے لیڈروں کو منع کر دِیا ہے کہ وہ بلاول بھٹوکی تقریر پر تبصرہ اور تنقید کرنے سے گریز کریں۔ یہ وزیرِاعظم میاں نواز شریف کی ”سیاسی سائنس“ ہے یا جناب آصف زرداری کی؟۔
”سیاسی سائنِسدان“ بُھٹّو اور زرداری
Apr 07, 2014