ایوان زیریں میں موجود اپنے ساتھیوں سے رہنمائی لیتے ہوئے سنیٹروں نے بھی وزارت خزانہ کو قائل کر لیا ہے کہ بیرون ملک پارلیمانی وفود کے ساتھ جانیوالے لیڈر، ارکان اور عملہ کو آئندہ آڈٹ حکام کو استعمال شدہ ائر ٹکٹس، بورڈنگ کارڈز، ہوٹل بلزدکھانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ارکان اسمبلی اور ایوان بالا میں موجود ارکان قوانین بناتے ہیں اور ایوان میں اس بات پر دھواں دار تقریریں کرتے ہیں کہ کوئی بھی شخص ملکی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ ہر کسی کو قانون کے سامنے جوابدہ ہونا چاہئے لیکن سنیٹر حضرات نہ صرف خود کو بلکہ اپنے ساتھ جڑے عملے کو بھی قانون سے بالاتر رکھنے کا حق مانگ کر رہے ہیں۔ قواعد کیمطابق سنیٹرز کو ٹی اے ڈی اے اور دیگر دستاویزات دکھا کر ہی رقم لینی ہوتی ہے۔ محکمہ خزانہ اس کو ریکارڈ کے طور پر اپنے پاس رکھتا ہے اور آڈٹ حکام ان دستاویزات کی بنیاد پر ہی آڈٹ کرتے لیکن سنیٹر حضرات نے بیرون ملک جانیوالے پارلیمانی وفود کے اخراجات آڈٹ حکام سے چھپانے کیلئے استعمال شدہ ائر ٹکٹس، بورڈنگ کارڈ، ہوٹل بلز دینے سے اپنے آپکو الگ کر لیا ہے۔ اس سے کرپشن کے دروازے کھلیں اور ہر سنیٹر گھر بیٹھے خزانے سے لاکھوں روپے وصول کرنے کا سلسلہ شروع کر دیگا۔ اس سے قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے ارکان نے بھی حکومت سے ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہیں اور مراعات فوج کے لیفٹیننٹ جنرل یا وفاقی سیکرٹری کے برابر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اگر یہ ارکان ایک مزدور سے 12ہزار روپے میں اپنا گھر چلانے کی توقع رکھتے ہیں تو انہیں اپنی شاہ خرچیوں کی بھی قربانی دینی ہوگی اور اگر ملک میں کوئی بھی فرد قانون سے بالاتر نہیں ہے تو پھر سنیٹرز کو بھی اس سے بالاتر نہیں ہونا چاہئے۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی کو اپنے ارکان کی اس قانون شکنی کا نوٹس لینا چاہئے۔
آڈٹ حکام سنیٹرز کو کسی قسم کی چھوٹ نہ دیں
Apr 07, 2015