لاہور (خصوصی نامہ نگار) تنظیم اتحادِ امت کے زیرِاہتمام منعقدہ آل پارٹیز مشرقِ وسطیٰ کانفرنس میں شریک ایک سو سے زائد سیاسی و مذہبی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے یمن اور سعودی عرب میں پاکستانی فوج نہ بھیجنے کا مطالبہ کر دیا۔ اے پی سی کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ حرمین شریفین کو اِس وقت کوئی خطرہ نہیں، مذاکرات اور نئے منصفانہ الیکشن ہی یمن کے مسئلے کا بہترین حل ہے، پاکستان یمن کے مسئلے پر فریق نہیں مصالحت کار بنے۔ 10 اپریل کو ’’یوم حرمتِ کعبہ و گنبد خضریٰ‘‘ منایا جائے گا۔ اتحادِ امت مہم چلائی جائے گی اور دستخطی مہم کے ذریعے ’’اینٹی وار ڈیکلریشن‘‘ پر لاکھوں افراد سے دستخط کرائے جائیں گے جبکہ اپریل کے آخر میں ’’شیوخ الحدیث کانفرنس‘‘ منعقد کر کے تمام مکاتب فکر کے مفتیانِ کرام کی طرف سے ’’میثاقِ امن‘‘ جاری کیا جائے گا۔ یمن کی صورتِ حال پر اسلامی سربراہی کانفرنس بلائی جائے۔ سعودی عرب اور ایران مسلم ممالک میں اپنی پراکسی وارز بند کریں۔ وزیراعظم یمن کی صورتِ حال پر اے پی سی طلب کریں۔ مکہ اور مدینہ کے دفاع کے لیے عالمِ اسلام کی مشترکہ فورس قائم کی جائے۔ اے پی سی میں شریک رہنمائوں میں سے صرف جامعہ اشر فیہ کے نمائندے مولانا مجیب الرحمن انقلابی نے مشترکہ اعلامیہ کے چند نکات سے اختلاف کیا اور سعودی عرب میں فوج بھیجنے کی حمایت اور حوثی باغیوں کی مذمت کی۔ تنظیم اتحادِ امت کے زیرِاہتمام مقامی ہوٹل میں منعقد ہ اے پی سی کی صدارت تنظیم اتحاد امت کی چیئرمین محمد ضیاء الحق نقشبندی نے کی۔ اے پی سی میں پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف، مسلم لیگ (ن)، سنی اتحاد کونسل، جے یو آئی (س)، ملی یکجہتی کونسل، عوامی مسلم لیگ، (ق) لیگ، مجلس وحدت المسلمین، تحریک منہاج القرآن، جے یو پی، جماعتِ اہلِسنت، وفاق المدارس شیعہ، سنی تحریک، انجمن طلباء اسلام، مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، جے یو پی (نیازی)، پاکستان فلاح پارٹی، ہیومن رائٹس موومنٹ، محافظ وطن پارٹی، مصطفائی تحریک، ادارہ فکرِ جدید، تحفظِ ناموسِ رسالت محاذ، محافظانِ ختم نبوت سمیت سو سے زائد چھوٹی بڑی تنظیموں کے رہنمائوں نے شرکت کی۔ اے پی سی کے آخر میں تنظیم اتحادِ امت کے چیئرمین ضیاء الحق نقشبندی نے پریس کانفرنس میں اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے اعلامیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کم کرانے کے لیے سرکردہ مسلم ممالک کا سفارتی مشن تشکیل دیا جائے۔ پاکستانی حکومت سعودی عرب کو واضح پیغام دے کہ پاکستانی فوج مکہ اور مدینہ کے تحفظ کے لیے حاضر لیکن یمن کی خانہ جنگی میں پاکستان فریق نہیں بن سکتا۔ مسلم ممالک اپنے تمام مسائل او آئی سی کے پلیٹ فارم پر حل کریں اور او آئی سی کو متحرک اور فعال بنایا جائے۔ اندرونِ ملک بھی کراچی سے وزیرستان تک پاک فوج دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں مصروف ہے۔ اِن حالات میں یمن میں فوج بھیجی گئی تو ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ شدید متاثر ہو گی اور دوسری طرف پاکستان بھارت اور پاک افغان بارڈر کے ساتھ ساتھ پاک ایران بارڈر بھی خطرے سے دوچار ہو جائے گا۔ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا کہ افغانستان کی جنگ کا حصہ بننے کی وجہ سے ہمارا ملک آج بھی دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے۔ اس لیے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے۔ حسین نقوی نے کہا کہ حرمین شریفین کا دفاع اور آل سعود کی بادشاہت کا دفاع دو الگ الگ چیزیں ہیں پاکستانی فوج کو سعودی مفادات کی جنگ کا ایندھن نہ بنایا جائے۔ علامہ اقبال کامرانی نے کہا فوج کشی کسی مسئلے کا حل نہیں۔ سید ثاقب اکبر نے کہا کہ عرب ممالک کی نسلی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم نو اور گریٹر اسرائیل کی تشکیل امریکی ہدف ہے۔ جمشید اقبال چیمہ اور سعدیہ سہیل رانا نے کہا کہ یمن اور سعودی عرب میں فوج بھیجنے کے نتائج انتہائی تباہ کن ہوں گے۔ رانا خالد قادری نے کہا کہ حکومت یمن بحران پر عوامی امنگوں کے مطابق فیصلہ کرے گی۔ دیوان محی الدین نے کہا کہ پاکستان صرف مکہ اور مدینہ کے دفاع تک محدود رہے۔ علامہ محمد عاصم مخدوم نے کہا کہ حرمین شریفین کی حرمت پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ مولانا مجیب الرحمن انقلابی نے کہا کہ یمن میں منتخب حکومت اور ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھانے والے باغی کسی رحم کے مستحق نہیں۔ علامہ احمد علی قصوری نے کہا پاکستان، ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھے۔ جسٹس (ر) نذیر احمد غازی نے کہا کہ اِس نازک وقت میں عالمِ اسلام کو اتحاد، یکجہتی اور دانش مندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ مفتی محمد حسیب قادری نے کہا پاکستانی فوج کو کرائے کی فوج نہ بنایا جائے۔ تمکین آفتاب ملک نے کہا امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکا کر اپنے مقاصد پورے کر رہا ہے۔ مزیدبرآں آل پارٹیز کانفرنس میں منظور کی گئی قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا کہ مسلم حکمران اور او آئی سی سعودی عرب اور ایران کی باہمی کشیدگی کو ختم کروانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ یمن میں نمائندہ حکومت کے قیام کے لیے اقوامِ متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کی نگرانی میں منصفانہ اور شفاف الیکشن کروائے جائیں۔ سعودی عرب اور ایران دونوں یمن میں مداخلت بند کر دیں۔ بھارت کی آبی دہشت گردی روکنے کے لیے اقوامِ متحدہ اپنا کردار ادا کرے۔ حکومتِ پاکستان بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھائے۔ مسلم حکمران قبلۂ اوّل کی آزادی کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔